جولائی میں ہوئی نیب ترمیم مشکوک ، عدالتی فیصلوں سے متصادم  ہیں:  چیف جسٹس 

جولائی میں ہوئی نیب ترمیم مشکوک ، عدالتی فیصلوں سے متصادم  ہیں:  چیف جسٹس 
سورس: File

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب  قانون میں ترمیم سے متعلق کہا کہ جولائی میں ہونے والی نیب ترمیم مشکوک اور عدالتی فیصلوں سے متصادم  ہیں۔

سپریم کورٹ  میں  چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے لیگی رہنما جاوید لطیف کو گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کے حکم کیخلاف نیب اپیل پر سماعت کی۔

نیب پراسیکیوٹر رضوان ستی نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ملزم کو گرفتاری سے پہلے مطلع کرنے کا فیصلہ خلاف قانون ہے۔ 

 
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ جاوید لطیف کا مقدمہ انکوائری اسٹیج پر تھا جس میں گرفتاری نہیں ہو سکتی۔

  

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 3 جولائی 2023 کی ترمیم کے بعد دوران انکوائری بھی گرفتاری ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان  نے ریماکس  دیئے کہ جولائی میں ہونے والی نیب ترمیم مشکوک ہیں،  3 جولائی کو کی گئی نیب ترامیم عدالتی فیصلوں سے متصادم ہیں۔


چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل نے استفسار کیا کہ سوال جواب کے لیے بلائے گئے بندےکو جیل میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟ نیب قانون 2001 تک ڈریکونین تھا، نیب قانون میں ریمانڈ کا دورانیہ کم کرنے اور ضمانت دینے کی ترامیم اچھی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب قانون کی تشریح عدالتی فیصلوں اور آئین کے تناظر میں ہی ہو سکتی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر رضوان ستی نے کہا کہ  نیب ترمیم کا اطلاق ماضی سےکیا گیا ہے۔

 سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ چھوڑیں جی ان باتوں کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم 3 جولائی کی ترمیم سے پہلے کا ہے۔

سپریم کورٹ نے گرفتاری سے قبل ملزم کو آگاہ کرنے کے حکم کیخلاف نیب کی اپیل خارج کر دی۔ 

مصنف کے بارے میں