جب ریاست میں فوج کا احترام نہ ہو تو کیا ریاست کا وجود خطرے سے دوچار ہوجاتا ہے، جس ریاست میں فوج کی مرکزی اتھارٹی تحلیل ہوجائے اس کاوجودخطرے میں پڑجاتا ہے۔مضبوط فوج مضبوط پاکستان کی ضامن ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج ریاست کی طاقت کا مظہر ہوتی ہے اور جس ریاست کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہوتی ہے وہ اتنی زیادہ محفوظ اوراپنے معاملات میں اتنی ہی زیادہ آزاد اور پر اعتماد ہوتی ہے۔ جو ریاست جتنی کمزور ہوتی ہے وہ اتنی ہی غیر محفوظ اوراپنے معاملات اورمقاصد کے حصول میں اتنی ہی ناکام ہوتی ہے۔ آج ملک ایسی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے جہاں چند مفاد پرست سیاستدانوں اور ان کے حواریوں نے اپنے ہی افواج پاکستان کے خلاف سازشوں کا حصہ بن کر دشمنوں کے آلہ کاربن گئے اوردلفریب نعروں، وعدوں، دعوﺅں کے ذریعے اپنی ہی افواج کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے واضح کہا ہے کہ فوج اس ملک کیلئے عمران خان سے زیادہ ضروری ہے۔ دشمن ہماری فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاک فوج کے خلاف جس قسم کا زہریلا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے وہ ہر محب وطن کیلئے اذیت اورتکلیف کا باعث ہے۔ قوم کواپنے محافظوں پرفخر ہے جو سرحدوں کی حفاظت اورمادروطن کے دفاع میں مصروف عمل ہیں،کسی کوفوج کا ادارہ بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کوایک مضبوط اورجدید دفاعی صلاحیتوں سے لیس فوج کی ضرورت ہے، ضروری ہے کہ ہم بطورایک ریاست اور قوم اپنے دفاع کواولیت دیں اوروہ تمام وسائل مہیا کریں جس سے فوج مزید مضبوط ہو۔دنیا میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی ریاست نے بغیرمضبوط فوج کے اپنی حاکمیت قائم رکھی ہو یا اپنی قوم کا تحفظ کیا ہو، سلامتی اور دفاع کیلئے مضبوط اورمنظم فوج کا وجود لازم ہے۔ عراق، شام،مصر، لیبیا، کویت، یمن، لبنان، صومالیہ، فلسطین اور افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان ممالک کے پاس دفاع کیلئے مضبوط افواج نہ تھیں۔عراق تیل کی دولت سے خوشحال مگر کمزوردفاعی صلاحیت تھی،41برس پہلے اسرائیل نے عراق کے اوسی راق جوہری ری ایکٹر کو آٹھ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی مدد سے تباہ کیا۔اگر عراق کے پاس مضبوط فوج اورایٹمی قوت ہوتی تواسرائیل کبھی اس پرحملہ آور نہ ہوتا، امریکہ اوراس کے اتحادی عراق کو تباہ اور صدر صدام حسین کوپھانسی دینے کی جرا¿ت نہ کرتے۔کویت بھی تیل کی دولت سے مالامال لیکن کمزور دفاع کی وجہ سے عراقی جارحیت کا چند گھنٹے بھی مقابلہ نہ کرسکاتھا۔ لیبیا مغربی افریقہ میں واقع چوتھا سب سے بڑا ملک اور دنیا بھر میں 16 نمبر پر آتا ہے،97فیصد سے زائدمسلمان ہیں، لیبیا کا شمار بھی تیل کے ذخائر سے مالامال ممالک میں ہوتا ہے۔ کرنل قذافی کے دور میں لیبیا نے اقتصادی،معاشی، تعلیمی اور معاشی سطح پر بے پناہ ترقی کی اورعوام کو ہر طرح کی سہولیات حاصل تھی۔کرنل قذافی نے کمزور دفاع اور عالمی دباو¿ کی وجہ سے اپناایٹمی پروگرام رول بیک کردیا تو قذافی اور لیبیا کا حشر ایک تلخ تاریخ ہے، اگر لیبیا کے پاس مضبوط عسکری قوت ہوتی تو حالات یقینًا مختلف ہوتے۔اس طرح لیبیا اور مصر خانہ جنگی کے دوران ہزاروں افراد لیبیا اورمصر سے تیونس نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ سینکڑوں بحیرہ روم پارکرکے یورپی ممالک کارخ کررہے ہیں جہاں غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔شام کے بعد سب سے زیادہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد لیبیائی، شام اور مصرکی عوام کی ہے۔امریکہ، یورپ اور اتحادیوں نے مل کرافغانستان جیسے کمزور ملک کو بھی تباہ کردیا۔دنیا کااصول ہے کہ طاقت کو صرف طاقت ہی روکتی ہے، جن ملکوں کے پاس مضبوط فوجی دفاعی نظام نہیں ہوتے ان کا حال عراق، شام، مصر، لیبیا،کویت،یمن، لبنان، صومالیہ، فلسطین اورافغانستان جیسا ہی ہوتا ہے۔ امریکہ، یورپ اور اتحادیوں کاافغانستان کی جنگ کااصل مقصد پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرنااور قبضہ کرکے پورے خطے پر نظر رکھنابالخصوص چین کو آگے بڑھنے سے روکنا تھا۔ان حالات میں فوجی قیادت نے ملک کے داخلی اور خارجی امور، امن وامان کی بحالی اورمعاشی حالات کی بہتری کیلئے دہشتگردی، انتہاپسندی اوربھارت و اسرائیل سمیت تمام دشمن قوتوں کے ایجنٹوں کو ختم کرنے کیلئے بھرپور کام کیا۔ضرورت ہے کہ سیاسی اور انتظامی قوتیں اداروں کومضبوط بنائیں، مضبوط ادارے، ترقی اوروطن کی خوشحالی،امن کیلئے مضبوط دفاع ناگزیر ہے۔
دنیا کے کئی ممالک کے درمیان تناو¿ کی کیفیت بڑھ رہی ہے، روایتی ہتھیاروں کے ساتھ نیوکلیائی ہتھیاروں کاآپشن بھی موجودہے۔ پاکستان آرمی دنیا کی6ویں بڑی اورمضبوط ترین فوج ہے، پاکستانی فوج کے پاس 9 لاکھ 19 ہزار فوجی ہیں، ان میں سے 6 لاکھ 37 ہزار ڈیوٹی پر تعینات رہتے ہیں۔ پاکستان ایک مضبوط، بہادر اورمنظم فوج اور ایٹمی قوت کا ملک ہے جوامریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بخوبی علم ہے۔ تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ اگر دنیا میں عزت،وقار اورآزادی سے جینا ہے توآپ پاس ایک مضبوط عسکری قوت کا ہونا لازم ہے جو آپ کواندرونی وبیرونی خطرات سے محفوظ رکھے۔وطن عزیز کو قائد اعظمؒ کے بعد کوئی مخلص اور بے لوث ،محب وطن قیادت نصیب نہ ہوسکی، سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات اورموروثی سیاست کوترجیح دی ہے اور پھر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے عوام کے اندر اپنی فوج کے کردار کو مشکوک بنایا ہے۔کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنادو کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔وطن عزیز میں قدرتی آفات سے لیکر دشمنوں کی گولیوں کے سامنے افواج پاک سینہ سپر رہتی ہے، دہشتگرد ی کے خاتمے اور امن بحالی سمیت کرونا وباءمیں افواج پاکستان نے ہمیشہ اہم اور کلیدی کردارادا کیا ہے، جونہ صرف پاکستان کی جغرافیائی بلکہ نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے۔ خطے میں قیام امن کیلئے افواج پاکستان اور عوام نے دہشتگردی کے خلاف جو جنگ لڑی ہے بلاشبہ وہ خطے کی سب سے بڑی جنگ تھی جس میں دھرتی کے سپوتوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے ہیں۔ اس جنگ میں ہم نے مجموعی طور پر 70,920 پاکستانی خون کی قربانیاں دی ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب میں26,000 سے زائد IBOs اور کومبنگ آپریشن کر کے ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتر کی ہے۔ امن و عامہ کے حوالے سے بلوچستان میں بہتری آئی ہے،اورتاحال تقریباََ 5,000 انٹیلی جنس بیسڈآپریشنز کئے جاچکے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں رینجرز کے کراچی میں 8,840 آپریشنز کی بدولت حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں % 90 تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پاک فوج نے قومی مردم شماری ،خانہ شماری کے عمل میں 2 لاکھ جوانوں کے ذریعے اس کام میں حصہ لیا۔ ملکی سلامتی کا انحصار مسلح افواج کی بہادری ، جذبہ حب الوطنی اور پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور آئینی و جمہوری نظام کی مضبوطی میں ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کو یکسر فراموش کرکے ملکی وقومی سا لمیت کیلئے اکٹھے ہو جائیں۔