میرے بھائیوں جیسے دوست عمر مانی چودھری نے ایک دن کہا کہ اپنے پاک وطن کے رطوبت زدہ گند آلودہ مفلوج نظام کے بارے میں بھی کبھی کچھ لکھیں حالانکہ میں ہمیشہ ہی نظام، معاشرت، سیاست، معیشت اور اخلاقیات کے بارے میں لکھتا ہوں۔ یہ تمام نظام ہائے کار انصاف کی بنیاد پر کھڑے ہوا کرتے ہیں۔ اگر انصاف نہیں تو سیاست، عسکریت، معیشت، نظام، اخلاقیات صرف فلمی مکالموں، سیاست دانوں اور مذہبی علما کی تقریروں، دانشوروں کی تحریروں اور نام نہاد تجزیہ کاروں کے تجزیوں میں ملے گا۔ کسی بھی معاشرے کا تجزیہ اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ملکی نظام اور حکمرانی کی تاریخ میں ناکام مارشل لا، ناکام جمہوریتیں اور اکثر اوقات دونوں کا ملغوبہ رائج رہا ہے۔ سب کچھ ملا عوام کو بس انصاف نہ ملا۔ ضیاالحق کا مارشل لا تو ہم نے خود دیکھا اور پھر مشرف کی آمریت بھی دیکھی۔ مارشل لا کے دور کی شروعات میں لوگ انصاف کے حصول کی خاطر اپنے مقدمات ملٹری کورٹس میں لگوانا چاہتے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ اسی انصاف کی خاطر لوگ ملٹری کورٹس سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ وجہ صرف یہ کہ جو کارروائی جلدی میں ہو وہ انصاف سے محروم ہو گی اور جو نظام کے تقاضوں سے نکل کر تاخیر کی وادی میں چلی جائے گی وہ بھی انصاف سے انکار تصور ہو گا۔ میں نے چند سال سے دوبارہ وکالت کو زیادہ وقت دینا شروع کیا تو جو مناظر دیکھنے میں آئے بیان سے باہر ہیں۔ اس میں خاص طور پر سیشن کورٹس، خصوصاً کسٹم اور آئی آر ٹریبونلز ہیں۔ چپڑاسی جانتے ہیں منصفوں کا مزاج کیا ہے اور فیصلہ کیا ہو گا۔ بہرحال 19 تاریخ کو مجھے کسی کام سے اسلام آباد جانا ہوا، عصر حاضر کے درویش قبلہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ صاحب کے دفتر وفاقی ٹیکس محتسب کے مرکزی دفتر جانا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب فخر پاکستان کا خطاب عوام کی طرف سے جبکہ حکومت کی طرف سے ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز حاصل کر چکے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں مالیاتی ادارے کے واحد آفیسر ہیں جنہوں نے انسانی خدمت میں ملک کے بڑے ایوارڈ لیے۔ ڈاکٹر صاحب کے دفتر میں چند تصویریں آویزاں ہیں جن میں صدر ممنون حسین اور صدر عارف علوی ان کو ایوارڈ دے رہے ہیں، یقین کریں کہ یوں احساس ہی نہیں ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ یہ صدر علوی اور ممنون حسین کا ایوارڈ ہے ڈاکٹر صاحب جیسی بین الاقوامی شخصیت جس کو روہنگیا، ترکی کے لوگ اپنا ہم وطن سمجھتے ہیں، زلزلہ و سیلاب زدگان، علاج اور تعلیم سے محروم طبقات اپنی آخری امید سمجھتے ہیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے دیکھا ہے کہ لوگوں کے کام اور دکھ ختم نہیں ہوئے ان لوگوں میں ہم خود بھی شامل ہیں لیکن اللہ رب العزت نے جن کو توفیق دی وہ لوگوں کے دکھوں کا ازالہ ضرور کرتے ہیں۔ انصاف کی قدر و منزلت اور حیثیت کا اندازہ لگائیے کہ آقا کریم کے نبوت کے ابتدائی برسوں میں کفار اور منافقین کی سختیاں خونیں تاریخ رقم کر رہی تھیں۔ آقا کریمﷺ نے اپنے چند صحابہ سے کہا کہ تم لوگ ہجرت کر جاو¿ انہیں حبشہ جانے کا کہا اور ساتھ فرمایا کہ عیسائی بادشاہ نجاشی انصاف کرتا ہے۔ مسلمانوں کا وفد حبشہ آیا، نجاشی کے دربار میں پیش کیا گیا، کفار بھی آ گئے۔ جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف بہت باتیں کیں حتیٰ کہ نجاشی کو غصہ دلانے کے لیے اس کے عقائد پر بھی بھڑکانے والی گفتگو کی جس پر حضرت جعفر طیارؓ نے مسلمانوں کی وکالت کی، بادشاہ کو حقیقت سمجھائی، اس نے مسلمانوں کو پناہ دے دی۔ میں سوچتا ہوں انصاف میں کتنی قوت ہے کہ حق اس کی تائید اور پذیرائی سے متاثر ہوا کرتا ہے۔ اگر انصاف کی کرسی پر ڈاکٹر صاحب جیسا مومن، عاشق رسول، زہد و تقویٰ کا پابند، انسان دوست، غریب پرور اور حساس، انسانیت کا سفیر محب وطن شخص ہو تو آپ انصاف رسانی کا تصور خود کر لیں۔ یہی صورتحال سخاوت کی ہے، دو بہن بھائی قیدی آ گئے، خاتون قیدی کے لیے سرکار نے اس وجہ سے اپنی چادر فرش پر بچھا دی کہ وہ حاتم طائی کی اولاد تھی اور وہ سخی تھا جو بعد ازاں مسلمان ہو گئیں۔ گویا نیکی اور اعمال صالح کی بڑی عمر ہوا کرتی ہے۔ آج کل لوگ انصاف کی تلاش میں وفاقی ٹیکس محتسب کے آفس کا رخ کرتے ہیں کہ وہاں عصر حاضر کے ولی اللہ، درویش منش انسان دوست شخصیت ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا دربار ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے 1998 سے نیاز مندی اور نیابت داری کا رشتہ ہے۔ ان کی خدمت خلق کی کہانیاں اب کتابوں میں محفوظ ہونے لگی ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر جانے پہ یہ احساس ہوا کہ انصاف کا ایسا شفاف نظام شاید یورپ، امریکہ اور سیکنڈے نیوین ممالک میں بھی نہ ملے۔ البتہ قرون اولیٰ کے زمانے میں حکمران نورالدین محمود زنگی کے دور میں ضرور ہو جس میں انصاف، شفافیت، عاجزی، انسان دوستی، وطن پرستی اور انسان سازی دیکھنے کو ملے۔ تیز ترین اور مفت انصاف دنیا میں کہیں اور نہ دیکھا ہو گا۔ کم از کم ہماری عدلیہ، عسکری اداروں، بیوروکریسی میں تو سوچنا دیوانے کا خواب ہے۔ دوپہر کے وقت عمدہ کھانے کا ایک ٹرک جو تمام دفتر اور اردگرد کے دفاتر کے لوگوں کو بلا تمیز اور تاخیر ملتا ہے۔ وہ کھانا ڈاکٹر صاحب بھی کھاتے ہیں اور اس کا اہتمام بھی وہی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سیکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی انسانی خدمات ایک کالم میں نہیں سما سکتیں۔ آپ یقین کریں کہ ڈاکٹر صاحب کے دفتر میں لگی ہوئی قائد اعظم کی تصویر کو میں بڑے غور سے دیکھتا رہا اور مجھے نہ جانے کیوں یہ احساس ہوا بانی پاکستان کی تصویر شاید پہلی بار میں نے کسی موزوں دفتر میں دیکھی۔ وطن عزیز کا پرچم ڈاکٹر صاحب کے دفتر میں اپنی شان بیان کر رہا تھا، یہ سب میرا احساس ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی محکمہ کسٹم میں تین دہائیوں پہ محیط خدمات، اپنی این جی او کسٹم ویلفیئر سوسائٹی کے ذریعے کروڑوں انسانوں کی خدمت، تھر میں کنویں، زلزلہ زدگان کے لیے مکانات لگتا نہیں کہ یہ ایک انسان یا ان کی تنظیم نے بنائے ہوں، لگتا ہے کہ کوئی فلاحی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ ٹیکس محتسب کے دفتر میں کسی منفی کارروائی یا کارکردگی کا تصور بھی گناہ ہے۔ میرے پاس لوگ آتے ہیں کہ ہمارا کیس ٹیکس محتسب کے پاس کس طرح جا سکتا ہے کہ انصاف مل سکے۔ لیکن ظاہر ہے کہ دائرہ کار کی پابندی ہے۔ اگر آپ کسٹم ٹریبونل میں جائیں تو آپ آنکھوں کے اشاروں، باڈی لینگوئج اور کارکردگی پر غور کریں تو لگے گا کہ قومی خزانے کو جھونکیں لگی ہوئی ہیں۔ بہر حال تقابلی جائزہ لیں تو ٹیکس محتسب جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے ادارے کے سامنے اس وقت انصاف کی رسانی اور دیانت داری میں کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہے۔ دراصل ڈاکٹر صاحب کے جینز کا اثر ہے جو نیکی، انسان دوستی ان کو والدین سے ملی آگے ان کی اولاد میں منتقل ہو رہی ہے۔
انصاف کی تلاش اور ٹیکس محتسب آصف جاہ کا دربار
08:47 AM, 23 Aug, 2022