گبریل رونے مشہور صحافی ہیں ، یہ قرون وسطیٰ پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں اور یہ اب تک قرون وسطیٰ کی تاریخ سے متعلق کئی کتب لکھ چکے ہیں۔ یہ زبانوں کے بھی ماہر ہیں اوریہ انگلش، جرمن ، فرنچ ، اٹالین ، رومانین ، ہنگرین اور رشین نہ صرف روانی سے بولتے ہیں بلکہ ان زبانوں میں لکھنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ یور پ کے تمام نامور اخبارات میں کام کرچکے ہیں۔ سنڈے ہیرالڈ، دی ٹائمز اور نیوز انٹرنیشنل ان کے پروفیشنل کیرئر کا حصہ ہیں۔ گبریل رونے نے قرون وسطیٰ پر ایک کتاب The Tartar Khans Englishmanکے نام سے لکھی ہے ، یہ کتاب ان کے مختلف تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے اور ایمازون پر دستیاب ہے۔ اس کتاب میں گبریل رونے کا ایک آرٹیکل شامل ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی میں انگلستان کے بادشاہ جان لالک لینڈ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جان اس وقت کی عیسائیت اور کلیسا سے بہت تنگ تھا۔ کلیسا کے جبر نے اسے مجبور کر دیا تھاکہ وہ سنجیدگی سے عیسائیت کو ترک کرنے اور اسلام قبول کرنے کے متعلق سوچے ۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی رعایا سمیت اسلام قبول کر لے گا۔ اس نے 1213ءمیں سلطنت موحدین کے امیر ناصرالدین کے پاس ایک خفیہ وفد بھیجا جو تین افراد پر مشتمل تھا، یہ لوگ سفر کر کے مراکش پہنچے اور امیرناصرالدین سے ملے۔ انہوں نے ناصر الدین کو خط پیش کیا اورترجمان کے ذریعہ اپنے بادشاہ کی خواہش سے آگاہ کیا۔ ناصرالدین ابھی تازہ تازہ جنگ سے فارغ ہوا تھا ، ناصر الدین اور عیسائیوں کے درمیان معرکہ العقاب کے نام سے خوفناک جنگ ہوئی تھی جس میں اسے بدترین شکست ہوئی تھی ۔ ناصر الدین وفد کی پیشکش میں دلچسپی نہ لے سکا اور وفد ناکام لوٹ گیا۔شاہ انگلستان کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ بہت غمگین ہوا اور گبریل نے یہاں تک لکھا ہے کہ وہ زا رو قطار رویا۔ ایک لمحے کے لیے فرض کریں اگر ناصر الدین شاہ انگلستان کے وفد کی پیشکش کو قبول کرلیتا اور اسے سنجیدگی سے جواب دیتا تو آج کیا ہوتا؟ عین ممکن تھا کہ وہ برطانیہ جس نے بعد میں
پوری مسلم دنیا پر استعماری جال بچھایا دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔
اسی طرح کے حالات انیسویں صدی کے آخر میں جاپان میں پیدا ہوگئے تھے۔ جاپان کا بادشاہ میجی صرف سترہ سال کی عمر میں 1967میں جاپان کا بادشاہ بن گیا تھا ۔ میجی کا دور جاپان کی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے ، میجی نے اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحات کا اعلان کر دیا ، اس نے صدیوں پرانے جاگیر داری نظام کو ختم کیا ، جاپانی طلباءکو پڑھنے کے لیے بیرون ملک بھیجا اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلا کر جاپان کے اہم عہدوں پر بٹھا دیا۔ فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا ، فوج کی تربیت کے لیے فرانسیسی افسر مقرر کیے ، نیا آئین وضع کیا، پارلیمان اور قانون سازی کے لیے امریکہ ، فرانس اور جرمنی کے آئین و قانون سے استفادہ کیا ۔میجی کی ان اصلاحات کو ”میجی ریسٹوریشن“ کا نام دیا جاتا ہے ۔ انہی اصلاحات کا ایک پہلو یہ تھا کہ میجی جاپان میں مسیحیت کے داخلہ سے بہت پریشان تھا ، وہ سمجھتا تھا مسیحیت مذہبی لباس میں مغرب کی استعماری طاقتوں کا ہراول دستہ ہے۔ اس نے مسیحیت کو روکنے کے لئے تدبیرسوچی کہ جاپان میں اسلام کو عام کیا جائے۔وہ سمجھتا تھا اسلام ایک بے ضرر اور امن پسند مذہب ہے اور اس سے عیسائیت کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے 1891ءمیں ترکی کے سلطان عبدالحمید ثانی کے پاس ایک سرکاری وفد بھیجا۔وفد کے پاس شاہ جاپان کا خط تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ سلطان اپنے مبلغین کو جاپان بھیجیں جو جاپانیوں کو اسلام کی تبلیغ کریں اوراس طرح جاپانیوں اور مسلمانوں کے درمیان خوشگورا تعلقات بھی قائم ہو جائیں گے۔ سلطان عبد الحمید کواس کام سے کوئی دلچسپی پیدا نہ ہوئی اور اس نے جاپانی شاہ کے وفد کو شکریہ کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ آپ پھر ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ اگر سلطان عبد الحمید اس پیشکش کو قبول کرلیتے اور جاپان میں تبلیغی مشن روانہ کرتے تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے تھے۔ ممکن تھا کہ آج سارا جاپان مسلمان ہوتا اور مسلمان سائنسی و صنعتی پسماندگی کا جوشکا ر ہیں شاید یہ صورتحال نہ ہوتی۔
جما ل الدین افغانی انیسویں صدی کے اہم مفکر تھے ، اٹھارویں صدی کے بعدبر صغیر میں اٹھنے والی ہر تحریک پر شاہ ولی اللہ کے اثرات ہیں اسی طرح انیسویں صدی کے بعد مصر اور افریقہ میں اٹھنے والی اکثر تحریکوں پر جمال الدین افغانی کے اثرات نمایاں ہیں ۔ جمال الدین افغانی اپنی زندگی کے آخری برسوں میں پیرس منتقل ہوگئے تھے جہاں سے انہوں نے اپنا رسالہ ”العروة الوثقیٰ “ نکالنا شروع کیا ۔ ایک دفعہ مفتی محمد عبدہ اپنے استاد جمال الدین افغانی کو ملنے پیرس گئے تو استاد نے کہا اگر یورپ کے لوگوں کو صحیح طرح اسلام کی تبلیغ کی جائے تو یہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔انہوں نے اسلام اور دوسرے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے ، انہیں اندازہ ہے کہ اسلام عقیدے اور عمل ہر اعتبار سے دیگر مذاہب سے سادہ ، بے تکلف اور سچا مذہب ہے ۔ یہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں مگر انہیں ٹھیک طرح سے تبلیغ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پھر یورپیوں کی نسبت امریکہ کے لوگ زیادہ سنجیدہ ہیں کہ یورپ اور اسلام کے درمیان صلیبی جنگوں کی وجہ سے عدم اعتماد کی فضا موجود ہے ۔ دوسرا یہ کہ امریکہ ایک سائنٹفک معاشرہ ہے اور لوگ سائنسی بنیادوں اور استدلال سے آسانی سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ استاد کی بات سن کر مفتی محمد عبدہ نے کہا کہ پھر ہمیں استعمار کے خلاف سیاسی جدو جہد چھوڑ کر دعوتی عمل میں لگ جانا چاہئے مگر جمال الدین افغانی اس بات سے متفق نہ ہوئے ۔
یہ تینوں واقعات اس بات کے عظیم امکانات تھے کہ دنیا کے یہ طاقتور ترین ملک دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے اور ان ملکوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوتے یہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی مسلم حکمرانوں کی غلطیوں سے اسلام کو نقصان پہنچا اور موجودہ عہد کے حکمران بھی یہی کر رہے ہیں ۔ آپ عرب ممالک کے حکمرانوں کی ترجیحات دیکھ لیں ، افریقی ممالک کے حکمرانوں کی ہوس اقتدار دیکھ لیں اور اگر ان سب سے بڑھ کر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں تو پاکستانی حکمرانوں کو دیکھ لیں ۔ پاکستان میں سیاست کے عنوان سے جو کچھ ہو رہا ہے دنیا اسے ”اسلامی“ جمہوریہ کے نام سے دیکھ رہی ہے ۔ماضی کی طرح اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے یہ عظیم امکانات آج بھی موجود ہیںمگر انہیں دریافت کرنے کی شرط یہ ہے کہ ہم اور ہمارے حکمران پہلے سیاسی وحکومتی بکھیڑوں سے نکلیں اور سنجیدگی سے ان امکانات پر غور کریں ۔