ہماری خواہش تو تھی کہ ہم فلاحی ریاست ہی میں جی لیتے مگر کپتان بضد ہیں کہ وہ قوم کو مدینہ کی ریاست کے شہری بنا کے چھوڑیں گے، اس کاوش میں وہ شب وروز سرگرداں ہیں، نئی نئی پالیساں متعارف کرا رہے ہیں، بہت سے معاشی پیکیج بھی زیر تجویز ہیں، لنگر خانوں سے لے مالی امداد تک سب ہی اسکا حصہ ہے، اِنکی عالیٰ ظرفی ہے کہ وہ پرانے پاکستان کی خامیاں بڑے تسلسل کے ساتھ بیان کر رہے ہیں،اسی جذبہ سے سرشار ہو کر انہوں نے لاکھوں افراد کو روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے، علاوہ ازیں وہ تمام مراعات دینے کے خواہاں ہیں جس کا تصور ریاست مدینہ میں کیا جاسکتا ہے۔
نصف پارلیمانی مدت پوری کر نے کے بعد وہ اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ منصوبے کہیں ادھورے نہ رہ جائیں، انکے حواریوں نے یہ کہنا بھی شروع کر دیا ہے کہ اگلی سرکار بھی کپتان کی ہوگی،اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، زیادہ اچھا ہوتا کہ وہ سہانے خواب کے سحر میں قوم کو مبتلا کرنے کے بجائے قومی ادارہ جات کی سابقہ کارکردگی کاگہرائی میں جائزہ لے کر اِنکو گوررننس بہتر کرنے کا حکم صادر فرماتے تودوسری طرف سرکاری اداروں میں کڑے احتساب کی طرح ڈالتے یوں عوام کو ریلیف فراہم کرنے میںصرف کامیابی ہی نہ ملتی بلکہ سابقہ کوتاہیاں بھی عیاں ہو جاتیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحت کارڈ اور احساس پروگرام کو عوامی سطح پر بھر پور پذیرائی مل رہی ہے، کرونا جیسے نامساعد حالات میں سماج کی پسماندہ کلاس کو مالی طور پر سہارا ضرور ملا ہے،لیکن مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر کے یہ خوشی بھی چھین لی ہے۔
سرکار نے نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم بھی متعارف کرائی ہے،اس کا مقصد ہر شہری کو بلا امتیاز چھت فراہم کرنا ہے،اس کے لئے سٹیٹ بنک مالی معاونت کر ے گا۔اس کے بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا شاندار اور قابل عمل منصوبہ ہے۔
ہر شہری کوگھر فراہم کرنے کی سرکاری کاوش کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے، اس مقصد کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر ادارے بھی کام کرتے رہے ہیں، جن کے فرائض منصبی میں تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے ارزاں نرخوں پر نئے گھر بنانے کی پیش بندی کریں،لیکن قرائین بتاتے ہیں کہ باقی اداروں کی طرح یہ بھی غیرمنظم انداز میں کام کرتے رہے جس کا بھر پور فائدہ رئیل سٹیٹ مافیاز نے اٹھایا،اِنکی انٹری کے بعد زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور گھر بنانا عام شہری کے لئے خواب بن کر رہ گیا ہے، متعلقہ اداروں کی نااہلی پر کبھی قانون حرکت میں نہ آیا ،اس کا ہی فیض ہے کہ اب رہائشی کالونیوں نے نئے سماجی طبقات کو جنم دیا ہے، عسکری اداروں کی اس کاروبارمیں آمد نے عام شہری کواحساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے۔
میٹروپولیٹن سٹی میں ڈویلپمنٹ اتھارٹیز بنائی گئیں تاکہ آبادی کے تناسب سے مکینوں کی آبادکاری ہو سکے لیکن وہاں بھی بدعنوانی کا جن بے قابو ہوگیا،اندر کے افراد نے مافیاز کے ساتھ مل کر اپنے بنائے منصوبے ہی فلاپ کرا کر قومی خزانہ کو بھاری نقصان پہنچایا،اور غیر منظور شدہ کالونیاںمش روم کی طرح زمین پر اگنے لگیں،تو دوسری طرف عوام کو قانونی چارہ جوئی میں الجھا کر انکی رقم کو ہڑپ کرنے کی سازش کئی گئی اس سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
کچی آبادی کے نام پر سرکاری اراضی پر مافیاز نے قبضے کراکر تمام یوٹیلیٹی کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے اپنی جیب گرم کی،ان آبادیوں کے سرکاری ریکارڈ نہ ہونے پر یہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن کر رہ گئیں متعلقہ اداروں کی غفلت کا نتیجہ غیر منظم ،غیر قانونی آبادیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے، زرعی اراضی کو رہائشی میں منتقل کرنے کا ثمر یہ ملا ہے کہ اب زرعی ملک کو خوراک بھی درآمد کر ناپڑ رہی ہے۔
نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے لئے فراہم کردہ مالی معاونت کے بارے میں سٹیٹ بنک کے ایک ذمہ دار افسر نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تنخواہ دار، کاروباری فرد کے علاوہ سبزی فروش کو بھی مکان بنانے کے لئے ملک میں قائم چودہ ہزار کے قریب بنک برانچیں قرض دینے میں معاونت کریں گی،یہ قرضہ بیس سال کی مدت کے لئے ہوگا، قرض دار کو پانچ مرلہ مکان کے لئے دس فیصد کے حساب سے ڈائون پیمنٹ دینا ہوگی،دس مرلہ کے لئے پندرہ فیصد کے حساب سے یہ رقم پیشگی ادا کرنا ہو گی،بقول انکے دیہاڑی دار بھی یہ قرض لے سکتا ہے،مرکزی بنک کے اہلکار بھیس بدل کر قرضہ دینے کے عمل کو چیک کریں گے،یہ سہولت ان شہریوں کے لئے جن کا اس سرزمین پر اپنا ذاتی مکان نہیں ہے،اگرچہ اس کی تشہیر ہر بنک نے کی ہے لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ یہ قرض عام شہری کو نہیں مل رہا ہے،اس کے لئے تاخیری حربے استعمال کئے جارہے ہیں ،مرکزی بنک کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے ،تجویز کیا جاتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اسکی مانیڑنگ کی جائے خدشہ ہے کہ انوسٹر مافیاز اس منصوبہ کو بھی فلاپ کرتے ہوئے اپنے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب رہے گا۔
تاہم ایک بات توجہ طلب ہے کہ دیہاڑی دار، سبزی فروش،کنٹریکٹ پر کام کرنے والا لاکھوں روپے کہاں سے لائے گا تاکہ وہ قرض حاصل کر سکے، ذرائع بتاتے ہیں کہ سبسڈی کے نام پر فراہم کردہ یہ قرض کمرشل بنکوں کو مرکزی بنک کی طرف سے ایک فیصد مارک اپ پر دیا جارہا ہے جبکہ کمرشل بنک اسکو پہلے پانچ سال کے لئے پانچ فیصد جبکہ اگلے دس سال کے لئے دس کی شرح کے حساب سے قرض خواہ کو دیں گے ، سرمایہ ڈوبنے کا رسک تو پہلے ہی کم ہوگیا ہے تو پھر پیشگی رقم وہ بھی لاکھوں روپے رکھ کر گھر کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے ۔
مغربی ممالک میں پیشگی کسی مالی ضمانت کے محض ٹیکس کی ادائیگی پر بھاری بھر قرضہ وہاں کی حکومتیں تارکین وطن کو دیتی ہیں یہ تو اپنے شہری ہیں اِنکو چھت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے پھر اس طرح کی قدغن کیسی ہے۔اس ملک میں الخدمت فائونڈیشن اور اخوت جیسی پرائیویٹ این جی اوز بیروزگاروں کو قرضہ معمولی شخصی ضمانت پے دیتی ہیںبقول اِنکے قرض کی رقم کی واپسی سو فیصد ہے تو ایک ریاست یا بنک کا سرمایہ لے کر کون راہ فرار اختیار کرے گا۔
کپتان کی نیا پاکستان ہائوسنگ پالیسی عام شہری کے لئے بہت بہتر ہے لیکن خدشہ ہے کہ کمرشل بنکوں کی عدم دلچسپی کی بدولت اپنی اہمیت ہی نہ کھو دے اور وہ سرمایہ جو گھروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے وہ مافیاز کی جیب میں نہ چلا جائے، نیز اس سکیم میں دیہی آبادی کوشامل کرنا چاہئے کیونکہ ہماری کثیر آبادی اب بھی دیہات میں مقیم ہے، انہیں بھی مکانات کی تعمیر کے لئے سرمایہ درکار ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ہائوسنگ کی فراہمی مقامی حکومتوں کی ذمہ داری قرار پاتی ہے ہمارے ہاں ان اداروں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اس لئے ارباب اختیار کو سیاسی فیصلے کرنا پڑتے ہیں جس کی آڑ میں بہت سے لوگ ذاتی فائدہ سمیٹتے ہیں اور مستحق افراد محروم رہ جاتے ہیں متعلقہ قومی اور صوبائی اداروں کی باقاعدہ باز پرس ہوتی رہتی، منصوبہ بندی کا عمل جاری رہتا تو اس نوع کے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔