اسلام آباد :پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔
امریکی جریدے بلوم برگ نے پاکستان کے موجودہ حالات اور ان میں عمران خان کے کردار پر ایک آرٹیکل شائع کیا ہے جس کے مطابق سابق وزیراعظم کے قبل از انتخابات کےمطالبہ سے پاکستان میں ایک آئینی بحران نے جنم لیا ہے جبکہ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حکم پر عملدرآمد سے متعلق گومگو کی صورتحال سے مستقبل میں جمہوری عمل کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس معاملہ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال مرکزی کردار بن چکے ہیں جنہوں نے عمران خان اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے قومی سطح پر جلد انتخابات کیلئے دو صوبوں کی اسمبلیوں کو تحلیل کیے جانے کے بعد ازخود نوٹس لے کر انتخابات کی تاریخ دی۔
بلوم برگ کے مطابق پاکستان میں وفاقی حکومت کے ارکان پارلیمنٹ نے ازخود نوٹس لینے کے معاملہ پر چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے قانون سازی کی ہے جبکہ چیف جسٹس کی قیادت میں 8 رکنی بینچ تشکیل دے کر اس قانون سازی کو مکمل ہونے سے قبل ہی روکنے کے حکم سے اس بل پر عملدرآمد گومگو کی کیفیت میں ہے جس کے بعد چیف جسٹس اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک کشمکش کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جبکہ اس بل کی آئینی حیثیت کے بارے میں باضابطہ سماعت 2 مئی سے شروع ہوگی۔ ایک اور مقدمہ میں چیف جسٹس نے ملک کے مرکزی بینک کو الیکشن کیلئے فنڈز جاری کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ حکومتی وزراء نے عدالتی مداخلت پر تنقید کی ہے جبکہ وہ اکتوبر میں عام انتخابات کی بات کرتے ہیں، عمران خان اور اس کے اتحادی وفاقی حکومت کے خلاف صرف وقت کے معاملہ پر عدالت جا سکتے ہیں۔
مضمون کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر نعیم احمد نے کہا ہے کہ اگر حکم سے روگردانی کی جاتی ہے تو توہین عدالت لگ سکتی ہے۔ ملک میں آئینی بحران میں شدت آ رہی ہے۔ آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ یہ آئینی بحران اس وقت پیدا ہوا جب ایک سال قبل کئی مسائل کے باعث انتقال اقتدار کیلئے 13 جماعتوں کے سیاسی اتحاد نے تحریک عدم اعتماد کا راستہ اپنایا اور شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جلد انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سابق کرکٹ سٹار اپنی مقبولیت ثابت کرنے کیلئے جلد انتخابات کے خواہاں ہیں۔ وہ مبینہ کرپشن اور دہشت گردی کے مقدمات میں گرفتاری سے مسلسل بچتے آ رہے ہیں اور ان معاملات میں پولیس کے اقدامات کو سیاسی قرار دیتے ہیں جبکہ وہ مبینہ طور پر ایک قاتلانہ حملہ میں زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
امریکی جریدے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے جنوری میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی اکثریتی حکومتی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ آئین کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں انتخابات لازم ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا ءبندیال نے سپریم کورٹ کے بینچ کے ذریعے اس معاملے کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے صدر عارف علوی کو الیکشن کیلئے تاریخ کے اعلان کا اختیار دے دیا جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ انہوں نے دونوں صوبوں میں انتخابات کیلئے 9 اپریل کی تاریخ مقرر کی۔ تین جج صاحبان انتخابات کرانے کے حق میں اور دو مخالفت میں تھے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کا موقف واضح ہے کہ صوبائی انتخابات کیلئے فنڈز کی کمی ہے اور فی الوقت ان کی مکمل توجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو طے کرنے پر ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی فنڈز کی کمی اور دہشت گردی کے واقعات کے باعث انتخابات کو 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق بظاہر عدلیہ تقسیم نظر آ رہی ہے۔ عمران خان نے انتخابات کے التوا پر درخواست دائر کی اور اس معاملہ پر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔ دو ججز اس کیس کی سماعت سے الگ ہو گئے جبکہ 4 جج صاحبان نے اس کیس کو خارج کر دیا جس کے بعد چیف جسٹس نے بقیہ دو ججز کے ساتھ مل کر ایک صوبہ میں 14 مئی کو انتخابات کا حکم جاری کر دیا۔ وفاقی حکومت نے اپیل کی سماعت کیلئے جج صاحبان کا لارجر بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تاہم چیف جسٹس نے اس کو مسترد کر دیا۔ موجودہ حکومت کو انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو 10 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا گیا۔ حکومت نے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے اس کو اقلیتی رائے قرار دیا اور یہ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا۔ خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے درخواست کی صوبہ کی عدالت میں سماعت ہو رہی ہے۔
امریکی جریدے کے مطابق پارلیمنٹ میں فی الوقت وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ پارلیمنٹ نے ایک بل کے ذریعہ ایک صوبہ میں انتخابات کیلئے فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سے پہلے 2007 میں بھی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد قومی انتخابات موخر ہو چکے ہیں۔ بلوم برگ نے کہا ہے کہ عمران خان اور ان کےاتحادی الیکشن کمیشن پر عدالتی حکم ماننے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں اور وفاقی حکومت کے خلاف عدالت میں بھی جا سکتے ہیں، وہ ممکنہ طور پر احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا بھی انعقاد کر سکتے ہیں جس سے تشدد کی فضا پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ قومی انتخابات اکتوبر میں منعقد ہونے کا امکان ہے۔ مضمون میں کہا گیا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بھی تعلقات دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ پر ایک مشترکہ سازش کے تحت انہیں اقتدار سے نکالنے کا الزام بھی عائد کر چکے ہیں جبکہ ان دونوں نے ان الزامات کو رد کیا ہے۔