بارہ جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی نئی حکومت کیا ملک میں سیاسی استحکام کا باعث بن سکے گی؟ حالات اشارے کرتے ہیں کہ حکومت کے لیے فوری ایساکرنا ممکن نہیں بلکہ ملک کو عدمِ استحکام کے گرداب سے نکالنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں اول تو یہ کہ غیر فطری اتحاد نے حکومت تو بنا لی ہے مگر یہ حکومت مضبوط نہیں محض تین ممبران اسمبلی ناراض ہوکر گراسکتے ہیں کیونکہ دائو کی تاک میںبیٹھا ہراتحادی ناقابلِ اعتبار ہے ایک ایسا کمزور حکمران اتحادجس کے مستقبل کے بارے وثوق سے کچھ بھی کہناازحد مشکل ہے مقبول اپوزیشن کی موجودگی میں کمزور حکومتی اتحادکیسے ملک کو سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل سے نکال سکتا ہے؟۔
کابینہ کی تشکیل میں ہونے والی تاخیر سے بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک اچھا پیغام نہیں گیامزید یہ کہ کابینہ کی حلف برداری کے ساتھ ہی اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں بلاول بھٹوکا حلف نہ اُٹھا نا اختلافات کی نشاندہی کے ساتھ تصدیق کرتا ہے واقفان حلقے اِس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کچھ مزید اہم عہدوں کا تقاضاکررہی ہے جن میں صدرِ مملکت کا منصب بھی شامل ہے لیکن موجودہ اتحادی حکومت میںسب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہے اِس لیے وزیرِ اعظم کی اولیں ترجیح اپنی جماعت کوبھی مطمئن رکھنا ہے ظاہر ہے اپنی جماعت کو نظر انداز کرنے اور دیگرچھوٹی جماعتوں کو اہم عہدے دینے سے اُن کے اپنے ساتھیوں میں بددلی جنم لے سکتی ہے جبکہ پی پی کا خیال ہے کیونکہ عدمِ اعتماد کی تحریک کی کامیابی میں اُس کا کلیدی کردار ہے اِس لیے اہم عہدے اُس کا حق ہے لیکن یہ مطابات اتنے بھی سادہ نہیں وہ اگلے الیکشن میں پنجاب سے مناسب حصہ بھی چاہتی ہے جے یو آئی بھی عہدوں کی طلب میں کسی سے پیچھے نہیں پارلیمنٹ سے باہر مولانا فضل الرحمٰن خود صدر کا عہدہ حاصل کرنے کے آرزومند ہیں حالانکہ موجودہ حکمران اتحاد کے لیے صدر ِ مملکت کو ہٹانا آسان نہیں کیونکہ موجودہ حکمران دو تہائی کیا محض تین ووٹوں کامرہونِ منت ہے اگر یہ تین ووٹ ناراض ہوجاتے ہیں تو درجن جماعتوں کے بل بوتے پر قائم اتحادی حکومت کو ختم ہونے سے بچانا مشکل ہو جائے گا اِن حالات میں سیاسی استحکام کا خواب پوراہونے کا امکان نظر نہیں آتا ۔
پی پی قیادت اور شہباز شریف کے نقطہ نظرمیں بھی فرق ہے یہ تو عمران خان سے نفرت تھی جس نے دونوں کو یکجا کر دیا وگرنہ سچ یہ ہے کہ دونوں طرف اب بھی کہیں نہ کہیں بداعتمادی موجود ہے اسی بداعتمادی کی خلیج کوکم یاختم کرنے کے لیے بلاول بھٹو کو لندن جا کر نواز شریف کو اعتماد میں لیناپڑا حکمران اتحاد کو صرف پی پی ہی نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی سخت دبائو کاسامناہے دبائو بڑھانے کے لیے ہی بی این پی اختر مینگل گروپ نے چاغی فائرنگ کو جواز بنا کر قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا اور وفاقی کابینہ میں شمولیت تاخیرسے کی جہاں ایسی صورتحال ہو وہاں سیاسی استحکام کی توقع پوری نہیں ہو
سکتی بلاول بھٹو کی اولیں خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ چھوٹی جماعتوں کو اقتدار میں شامل کیا جائے تاکہ شہباز شریف کو فیصلے کرنے میں آسانی نہ ہو یہی کھینچا تانی سیاسی استحکام کے خواب کو توڑ سکتی ہے۔
پی ٹی ایم کی طرف سے مسلسل عسکری قیادت اوراُس کی سرگرمیوں پر تنقید ہو رہی ہے لیکن محض تین ووٹوں کی برتری پر قائم حکومت منع کرنے، جواب دینے یا حقیقت بتانے کے بجائے یہ بلاجواز تنقیدخاموشی سے سُننے پر مجبور ہے یہ طرزِ عمل حکومتی اتحاد سے کچھ اِداروں کو بدگمان کر سکتا ہے علاوہ ازیں فیصلے کرتے ہوئے شہباز شریف شاید غوروفکر یا مشاورت کے قائل نہیں اسی لیے دوہفتوں کے اندرانھوں نے اپنے کئی فیصلے واپس لیے اول سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بڑے جذباتی اندازمیں دس فیصداضافے کی نوید سُنائی مگر وزارتِ خزانہ نے جب بتایا کہ ابتدامیں ہی اگرتنخواہوں میں اضافہ کردیا تودوماہ بعدپیش ہونے والے بجٹ میں عوام کو مزید ریلیف نہیںدے سکتے جس پر ایک دن قبل ہی اضافے کاکیاجانے والا فیصلہ واپس لے لیا گیا نیز طارق فاطمی کو معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور مقرر کرتے وقت بھی جلد بازی کی گئی حلف برداری کے بعدکابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن کرنے میں بھی خاصی سرعت کا مظاہرہ کیا یہ وہی طارق فاطمی ہیں جو 2013 سے 2017 کے دوران نوازشریف حکومت میں اسی منصب پر کام کرتے رہے اورپھر فوج کے راز ڈان اخبار کو فراہم کرنے میں پرویزرشید اور طارق فاطمی ملوث پائے گئے جنھیں عسکری قیادت کے دبائو پر عہدوںسے ہٹادیا گیا اب بھی طارق فاطمی سے معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور کا قلمدان جس طرح چوبیس گھنٹوں میں ہی تبدیل کیا گیاہے یہ فیصلہ بھی دبائو کانتیجہ ہو سکتاہے فیصلوں میں جلد بازی اورپھر تبدیلی سے شہباز شریف کا امیج متاثر ہورہاہے ایسا لگتا ہے فیصلے کرتے ہوئے اُنھیںمختلف نوعیت کی ہدایات اور دبائو کا سامنا ہے اِس لیے کمزورحکومتی سربراہ کسی صورت سیاسی استحکام کی آرزو پوری نہیں کر سکتا۔
ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج زوال پذیر معیشت ہے محتاط اندازے کے مطابق ہر مہینے ایک سو ارب کے قریب پیٹرول پر سبسڈی دی جارہی ہے جسے جاری رکھنا ملک کو معاشی تباہی کے غار میں دھکیلنے کے مترادف ہے مگرپیٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنے سے موجودہ حکومت پس و پیش سے کام لے رہی ہے اُس کا خیال ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھانے کے بعد اگر پیٹرول کی قیمت میں بھی بیس یا تیس روپے اضافہ کر دیا گیا تو مقبولیت ختم ہوکر نفرت میں ڈھل جائے گی اسی لیے شہبازشریف نے قیمتوں میں ردوبدل کے بجائے برقرار رکھنے کامشکل فیصلہ کیا تاکہ عوامی اور سیاسی ردعمل سے بچ جائیں مگرچاہے حکومت کمزور ہے لیکن معیشت کی بحالی کے لیے جلد دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے بھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے وگرنہ عالمی مالیاتی اِدارے کی طرف سے قرض پروگرام موخر ہو نے کا خطرہ پیدا ہوجائے گاجس سے معیشت کو لاحق خطرات لاحل ہوسکتے ہیں انجام کار سیاسی عدمِ استحکام میں اضافے کو روکنا یا کم کرنا بس سے باہر ہو سکتاہے۔
حکومتی اتحاد فوری طور پر عام انتخابات کی طرف جانا نہیں چاہتا حالانکہ معاشی اور سیاسی عدمِ استحکام کا حل فوری اورشفاف انتخابات ہیں تاکہ عوام سے تازہ مینڈیٹ لیکر ناگزیر فیصلے کیے جا سکیں لیکن عمران خان جو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کرچکے ہیں اُن کے پشاور،کراچی اور اب لاہور کے جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں غیر ملکی ہاتھ کا اُن کا بیانیہ عوام نے تسلیم کرلیا ہے اب پی ٹی آئی مزید انکشاف کررہی ہے کہ الیکشن کمیشن میں اُس پر پابندی لگانے کی سازش تیا ر ہوچکی ہے اگر ایسا کوئی فیصلہ آتا ہے تو استحکام کے بجائے ملک میں سیاسی عدمِ استحکام بڑھنے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ ایسا کوئی بھی فیصلہ عوامی غم و غصے کو ہوادے گا شاید ن لیگ اور پی پی دونوںجماعتوںکو بھی یہی خوف دامن گیر ہے اسی لیے عوام میں جانے سے کترارہی ہیں لیکن مزید مصلحت پر مبنی فیصلے ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتے اگر معاشی بدحالی کو ختم کرناہے اور سیاسی استحکام یقینی بناناہے تواِس کے لیے لوازمات پورے کرنا ہوں گے حقِ حکمرانی کا عوام سے نیا فیصلہ لینا ہو گا شیخ چلی کی طرح مفروضوں سے اچھے نتائج نہیں مل سکتے۔