یوں تو عوام اور مسائل لازم و ملزوم ہیں، ریاست کوئی بھی ہو ملک جونسا بھی ہو، عوام کو کسی نہ کسی صورت میں مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے،ہر سرکار اپنی گوورننس سے ان پر قابو پانے کی ہر ممکن کاوش کرتی ہے، لیکن یہ دعویٰ کرنے میں ناکام رہتی ہے کہ اس نے عوام کے تمام مسائل حل کر دیئے، اس لئے بھی کہ نت نئے نئے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں، مغربی ممالک کے عوام کے مسائل کی نوعیت مشرقی ممالک سے مختلف ہے، ایسی طرح ہر طبقہ کے مسائل بھی اپنی نوعیت میں مختلف ہوتے ہیں، نیم خواندہ، خواندہ حضرات کے مسائل ہوں یا معاشرے کی ایلیٹ کلاس کی مشکلات ہوں دونوں ہی الگ الگ تھگ مزاج رکھتے ہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شہری آبادی اور اہل دیہہ کے عوامی مسائل بھی ذرا وکھری ٹائپ کے ہوتے ہیں۔
ایسا سماج جس کی زیادہ تر آبادی نا خواندہ ہو اور اسکی بڑی تعداد توہمات پر یقین رکھتی ہو اس کے اپنے ہی پیدا کردہ مسائل خانگی مشکلات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں، ان میں کچھ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں جن کو کوئی سرکار بھی حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی ہے،اگرچہ تعلیم یافتہ طبقات نے معاشرہ میں از خود مسائل کو حل کرنے کی طرح ڈالی ہے،جس میں بڑا عمل دخل انکی اجتماعی کاوشوں کا بھی ہے، بعض نے اپنی سماجی تنظیمیں بنا رکھی ہیں جومسائل کی جانب سرکار کو متوجہ کرتے رہتے ہیں۔
ہم یہاں اس مسائل کی نشاہدہی کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، جو گذشتہ کئی دہاہیوں سے عوام کو درپیش ہیں، یہ عمومی طور پر روایتی seasionly] [ قسم کے ہیں،دلچسپ امر یہ ہے کہ مسائل ہر سرکار کے علم میں ہیں، ان پر باقاعدہ گفت و شنید ہوتی ہے، اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں، پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، اہداف طے کئے جاتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ طلب کی جاتی ہیں، قانون بھی حرکت میں آتا ہے لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مافیا ہر سرکار کے لئے یہ مسائل پیدا کرتا، اپنی اپنی پالیساں بناتا، اپنے ہدف طے کرتا ہے اور پھر سرکار کو ناکام کرتے ہوئے خود کامیاب ہو جاتا ہے، سرکار کے کارندے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عوام حسب روایت چپ سادھ لیتی ہے۔
ماہ رمضان میں بھی اس مافیا نے اپنا کام کر دکھایا ہے خورو نوش کی وہ اشیاء جو اس ماہ مقدس کی آمد سے قبل ارزاں قیمت پر فروخت ہو ررہی تھیںاچانک انھیںپر َلگ گئے قیمتیںآ سمان سے باتیں کرنے لگیں بالخصوص فروٹ ،مشروبات ،کھجور بیچنے والوں نے اپنا ٹارگٹ پورا کیا ہے،یہی معاملہ دیگر اشیاء کا بھی ہے۔
مبارک ماہ جو اب رخصت ہونے کو ہے ،اس کی برکت،نعمت سے کسی کو بھی انکار نہیں، اس میں کیا متوسط طبقہ، ضرورت مند خاندانوں کا دل نہیں چاہتا کہ ان کے دستر خوان پر بھی وہ لوازمات ہوں جو کسی بھی اوسط درجے کے خاندان کے ہاں ہوتے ہیں اگر ذخیرہ اندوز خدا خوفی کرتے ہوئے از خود اشیاء کو مارکیٹ میں لے آئیں تو نارمل قیمت سے انکی بھی خواہش پوری ہو سکتی ہے لیکن سٹور میں رکھ کر بھاری بھر منافع کمانے کاعمل سرکار کی رٹ کو ہر دور میںچیلنج کرتاہے ۔
کہاجاتا ہے کہ مغربی دنیا میں جب بھی ان کے مذہبی تہوار آتے ہیں تاجراشیاء کی ذخیرہ اندوزی کرنے کے بجائے عوام کو ارزاں نرخوں پر فروخت کر کے راحت اور دلی سکون پاتے ہیں ،ہمارے تاجر نے اس کو منافع خوری کے’’ سیزن ‘‘کا نام دیا ہوا ہے۔
عید کے ایام میں وہ مال بھی مہنگے داموں فروخت کرتاہے جو عام حالات میں بھی بکنے کے قابل نہیں ہوتا، اس کا واضح مطلب گاہگ کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے، ہر دو عیدین پر ٹرانسپورٹرز کی طرف سے مسافروں کی بے بسی سے فائدہ اٹھانا معمول بن چکا ہے اور یہ مشق گذشتہ کئی سال سے جاری ہے، میڈیا میں دہائی دی جاتی ہے مگر زیادہ مسافر دگنا کرایہ ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اوورلوڈنگ کی شکایت سامنے آتی ہیں، زیادہ کمانے کے چکر میںمسافر حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں جو لمبی مسافت طے کر کے اپنے پیاروں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں، شہروں میں ٹریفک کے چالانوں کا سیلاب آجاتا ہے۔
عیدبقرکے موقع پر کسانوں کے جانور چوری ہونا معمول ہوتا ہے،راقم کا تعلق چونکہ دیہاتی زندگی سے بھی ہے اس لئے وہ اس کسان کے احساسات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ جس نے سال بھر محنت کر کے کاروبار کی نیت سے جانور پال رکھے ہوتے کہ عید کے موقع پر بیچ کر وہ منافع کمائے گا لیکن اگر گن پوائنٹ پر رات کی تاریکی میں سارے جانور ڈکیت لے جائیں تو اس بیچارے کا کیا حال ہو گا،اس سیزن میں جانوروں کی ڈکیتیاں معمول بن جاتی ہیں، گجرات کے چودھری سابق وزیراعلیٰ نے اپنے عہد میںاس کی روک تھام کے لئے چوکیاں بنوائی ، بعد ازاں یہ منصوبہ سیاست کی نذر ہوگیا۔
قریباً ایک ماہ قبل جہانیاں تحصیل کے دیہات 126/10 R میں وڑائچ فیملی سے میرے عزیز کے ڈیرہ پر موجود سب افراد کو ڈاکو رات کی تاریکی میں رسیوں سے باندھ کرگن پوائنٹ سارے جانور ڈالے میں ڈال کرلے گئے ،معمول کے مطابق وہ تھانے کے چکر لگا رہے ہیں، ان میں سے کچھ جو برآمد ہوئے ہیں وہ انکے نہیں، یہ ایک کسان کی کہانی نہیں، لاقانونیت محنت کشوں کو زندگی بھر کی پونجی سے محروم کر دیتی ہے، حلقہ احباب میں محکمہ پولیس سے متعلق ایک دیانتدار افیسر کا کہنا ہے کہ جب تک اس مذکورہ محکمہ کو سیاسی مدا خلت سے مکمل پاک نہیں کیا جاتا،قصور وار کو سزا نہیں ملتی، ان سے دست شفقت اٹھایا نہیں جاتا، جرائم پر قابو پانا نا ممکن ہے۔
اس طرح کا کچھ معاملہ شاہراہوں، موٹر وے پر موجود ریسٹورنٹ کا بھی ہے، وہاں ٹک شاپ،اور دیگر خورونوش کی قیمت پر سرکار کا کوئی کنٹرول ہی نہیں، لگتا ہے کہ ریاست کا کوئی قانون ان پر لاگو ہوتا ہی نہیں، منہ مانگے دام کی وصولی کو یہ اپنا حق سمجھتے ہیں، ان حالات میں ان سے بحث کرنا اپنی عزت کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے، ٹائر شاپ کے حوالہ سے کچھ کہانیاں سوشل میڈیا پر آن ائر ہوئی ہیں، سادہ لوح مسافروں کی گاڑی کے ٹائر پر کٹ لگا کر اپنا ٹائر فروخت کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی ریاست میں کھانے کی اشیاء کی جو قیمت ائر پورٹ پر ہے اسی مالیت میں یہ صحر ا میں خالص دستیاب ہو گی۔
عید کے موقع پر پارکوں ریستورانوں میں اضافی قیمت کے نام پر جو کھلواڑ صارفین کی خوشیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ نا قابل بیان ہے۔ لگتا ہے کہ ہر شہر کے باسی جنگل کے مکیں ہیں، بالخصوص دیہاتوں میں اس موقع پر دو نمبر مگرمہنگی اشیاء بچوں کو دی جاتی ہیں جو بعد ازاں بیماریوں کا باعث بنتی ہیں اس پر کوئی روک ٹوک نہیں، کیا فوڈ اتھارٹی کی حدود سے دیہی آبادی باہر ہے؟
جن خرافات کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان سے ہر شہری کو پالا پڑتا ہے،ریاست کو تو ماں کا درجہ حاصل ہے ،مگر شہری کسی نہ کسی شکل میں مافیاز کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں، عیدین کے ایام میں قانون خاموش ہوتا ہے،متعلقہ اداروں کے افراد اپنی اپنی خوشیوں میں مگن ہوتے ہیں۔
اہل اقتدار ایک نظر ان مسائل کی طرف بھی ڈالئے۔
اہلِ اَقتدار ایک نظر اِدھر بھی
08:54 AM, 23 Apr, 2022