بھارتی گورو رجنیش کو امیروں کا بھگوان بھی کہتے ہیں۔ اوتار اور نہ جانے کیا کیا القابات سے یاد کیا جاتا، جنس پرستی، سیکس، تحفے، موج مستی اس کے منشور کا حصہ تھا۔ روایتی مذہب کے مقابلے میں اس نے ایک نیا مذہب ایجاد کر لیا۔ باپ کپڑے کی دکان کرتا تھا، تین کمروں کے گھر میں پیدا ہوا۔ دولت، انسانی ذہنوں پر اقتدار، تحائف اور عیاشی اس کے مراقبے کے نتائج تھے۔ بھارت کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی مشہور تھا۔ امریکہ میں اس نے ہزاروں ایکڑ جگہ پر ایک شہر بسا لیا جس میں اس کے پیروکار جاتے، نشہ، سیکس اور ہر وہ کام جو عام قانون میں منع تھا، اس کے شہر میں ہوتا، اس نے بڑے بڑے آشرم بنائے جن میں بیواؤں، بے سہاروں کے نام پر یہی دھندہ ہوتا اور پھر امریکہ میں چار ہزار سے زائد ناجائز شادیاں کرائیں۔ امریکہ سے فرار ہو کر آیا اور الزام عائد کیا کہ امریکہ نے اس کے خلاف سازش کی۔ مرنے تک وہ مطلوب رہا۔ اس کو دوا میں زہر دیا گیا جو بعد ازاں بیماری اور اس کی موت کا سبب بنا۔ اس کو زندگی میں امریکہ کی سازش قرار دیا گیا۔ اس کی موت اور کردار آج تک معمہ ہے۔ اس کی ہزاروں کتابیں، لیکچرز سحر انگیز اور متاثر کن تھے اور آج بھی اس کی تحریریں انسان کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ صرف امیروں کا بھگوان کہلایا۔ اس کی سیکرٹری نے کہا کہ نشہ اس کے خاتمے اور زوال کا سبب بنا، امریکہ نے سازش کیا کرنا تھی؟ بھارت کا متنازع ترین شخص تھا اس کے پیروکار آج بھی موجود ہیں، اس کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کو انسانی ذہن کو ساقط کرنے کے فن پر ملکہ حاصل تھا، لاکھوں لوگ پیروکار تھے حتیٰ کہ ونود کھنہ اس کے پاس پہنچ گیا، اپنا سب کچھ لٹا دیا اور پھر کنگال ہو کر کینسر میں مبتلا ہونے تک اس کے پاس رہا۔ جب وارداتیا ذہن پر حملہ آور ہوتا ہے تو پھر کوئی بچ پائے بہت مشکل ہے۔ گو کہ اس کا حالات حاضرہ سے بظاہر تعلق ہے نہ واسطہ، نہ جانے کیوں مجھے یکا یک خیال آیا کہ دین تو صرف اللہ کا دین ہے، باقی مذاہب، مکاتب فکر، ارسطو سے لینن اور مارکس تک کئی آئے اور کئی گئے۔ خالق کے دین کا سلسلہ جو آقا کریمؐ پر مکمل ہوا بس وہی حکمت والا ہے اور انسان و کائنات کے لیے کافی ہے باقی مکاتب فکر چاہے مذہب کے نام پر ہوں یا سیاست کے نام پر ان میں
صرف ذہن کو ساقط کرنے کا فن کارگر ہوتا ہے، پھر چاہے کیلوں والے ڈنڈوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کو ماریں، غیر مذہب کو زندہ جلا دیں، کچھ بھی کر لیں، بس! آپ کو ایک ہجوم ایک انسانی گروہ کے ذہن پر قبضہ کرنا ہے۔ یہ فن ہپناٹزم یعنی نوم توجہ پیدا کرنا۔ آپ کسی بھی مکتب فکر کے لوگوں کو دیکھ لیں ان کے پیشوا اس فن پہ کمانڈ رکھتے ہوں گے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے دوست محمد الفت ملک صاحب کے کسی واقف نے مجھ سے فراڈ کیا۔ الفت ملک کہنے لگے کہ بھائی جان! آپ اچھے خاصے سمجھدار ہیں، آپ اس کے جھانسے میں کیوں آ گئے۔ میرے ابا جی بھی پاس بیٹھے تھے، انہوں نے کہا، الفت بیٹے فراڈیا پہلے بندے کی مت مارتا ہے، ذہن پر حملہ کرتا ہے پھر بندہ ذمبی روبوٹ کچھ بھی بن جاتا ہے۔ پلے نہ بھی ہو ادھار لے کر حتیٰ کہ جان کی بازی لگا دیا ہے۔ سیاست ہو یا مذہب، سماج پر یا معاشرت آپ کو ذہن پر قبضہ کرنے والوں کا آج کی دنیا میں راج نظر آئے گا۔ مجھے یاد آیا کہ ایک بہت ہی نامور پہلوان تھا جو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ پہلوان کا گوجرانوالہ کے پہلے دوسرے نمبر کے پہلوانوں اور پاکستان کے صف اول کے پہلوان خاندان سے تعلق تھا۔ ایک دن معظم بھائی (میرے بڑے بھائی جنت مکین) سے کہنے لگا کہ اگر پولیس نہ ہوتی تو میں شہر کے لوگوں کو سیدھا کر دیتا۔ رات بارہ عدالتوں کا دکھ عمران خان کو زندگی بھر یاد رہے گا۔ فائز عیسیٰ پر ریفرنس غلطی تھی، اب ٹکٹیں خود دوں گا۔ نہ جانے اس شخص کے کتنے بیانات ہیں، شاید اس کے جسم پر اتنے مسام نہیں۔ یہ وہ پہلوان جو ہر کشتی گر جاتا اور ہر بار اس کے پاس کوئی نہ کوئی عذر ہوتا۔ ٹرمپ سے ورلڈ کپ لیا، ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کے پہلے حکمران ہماری بات نہیں مانتے تھے۔ سی پیک ساقط، سٹیٹ بنک آئی ایم ایف کے سپرد، اس کا گورنر آئین سے ماورا، تاریخ میں لیا جانے والا قرضہ ایک طرف اور ان پونے چار سال میں اس سے 70 فیصد زیادہ قرض مگر نیا کچھ نہیں، توشہ خانہ اندر خانہ بن گیا۔ یار کیا روزانہ ایک ہی بکواس کون اتنے جھوٹوں کا جواب دیتا پھرے۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ سچ کہنے کی جرأت نہیں امریکی سازش کا بیانیہ تیار کیا۔ امریکہ سازش کیوں کرے گا تھرڈ سیکرٹری کے آفس کے آدمی کی بات کو بم بنا دیا گیا۔ 8 مارچ سے لے کر 27 مارچ تک جوڑ توڑ الزام کی سیاست عروج پر رہی۔ پرویز الٰہی سے ایم کیو ایم تک اس عرصہ میں کوئی سازش کا ذکر تک نہ تھا۔ قوم نیزے کی انی پر اڑی رہی، 3 اپریل کو ریڈی میڈ رولنگ پڑھ کر ڈپٹی سپیکر فرار ہوا۔ سپریم کورٹ کا حکم ہوا کہ 10 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو۔ آخری دن تھا پوری دنیا میں پاکستان کے لوگ صبح نو بجے سے رات 11:45 تک ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہے اور موصوف پارلیمنٹ آئین عدالتی حکم ہوا میں اڑاتے رہے، اداروں کے خلاف سازش میں مصروف رہے۔ حضرت امام حسینؓ کا ٹوئٹ کرنے والے، آخری بال تک کھیلنے والے پارلیمنٹ میں ہی نہ آئے۔ آئین، ملک، پارلیمنٹ نظام بچانے کے لیے عدالتیں کھلیں۔ قیدیوں کی ویگن آئی تو پتہ پانی ہو گیا۔ اب سازش بیانیہ کے ساتھ فکر ہے کہ ولی اللہ بنے ہوئے ہیں کہ نوازشریف اور دیگر لوگ جو ان کے انتقام کے تحت مقدمات میں دھر لیے گئے تھے اب وہ مقدمات ختم کریں گے، گویا انہیں چاہیے کہ عمران خان نے جو مقدمات بنائے ہیں، یہ ان پر قائم رہیں۔ اس سے پونے چار سال کا حساب نہ لیں۔ ملک کی بربادی کا سوال نہ کریں۔ بس! اس پہلوان کی طرح آئین، قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ ہوں تو یہ ملک ٹھیک کر دے۔ مگر افسوس کہ ہر جگہ، ہر شعبہ میں ذہن کو ساقط کرنے والے گورو رجنیش ہیں، جنہوں نے اپنے پیروکاروں کو بے حس ذومبی روبوٹ بنا کر رکھ دیا۔ بچہ جمورا بنا ڈالا۔ رحم کرو اس قوم پر کہ اس کو اس حد تک تو نہ مار ڈالو کہ یہ آپ کی حکومت اور پیروی کے قابل بھی نہ رہے۔ جہاں جہاں اداکاروں کے بل بورڈ ہوتے تھے آج مختلف مکاتب فکر چاہے وہ سیاسی ہوں یا کسی مسلک کے پیشواؤں کی تصاویر نظر آتی ہیں، کیا کریں۔ حل صرف ایک ہے کہ آئین، قانون اور معاشرت کی بحالی، اقدار کی بحالی ہمارے ہاں سب کچھ شناخت کے لیے کرتے ہیں جن ممالک میں قانون کی عملداری ہے وہاں پر انسانوں کو جعلی شناخت کی ضرورت نہیں؟ یورپ، امریکہ، سعودی عرب میں کوئی ایس پی، ڈی سی، مجسٹریٹ، چیف سیکرٹری کا نام نہیں جانتا۔ ہمارے ہاں سپاہی سے لے کر اوپر تک لوگوں کو شجرے یاد ہیں۔ یہ سب دور غلامی کی باقیات ہیں ابھی ان سے نکلے نہ تھے کہ ہمیں ہر مکتبہ فکر میں گورو رجنیش ٹکرا گئے۔ آئین، پارلیمنٹ، عدالت، ادارے اور عوام کچھ بھی کہیں۔ بس تو جھوم جھوم جھوم جھوم ذومبی تو جھوم۔