میاں شہباز شریف کی حکومت کو درپیش چیلنجز…!

08:29 AM, 23 Apr, 2022

نیوویب ڈیسک

اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ وزیرِاعظم میاں محمد شہباز شریف کی حکومت کو گو نا گوں مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ جن سے عہدہ برآ ہونا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور سمجھا جا رہا ہے۔ میاں شہباز شریف کو بطورِ وزیرِ اعظم اپنی گُڈ گورننس، فعال اور متحرک شخصیت، بہترین منتظم ہونے کا نقش ثبت کرتے ہوئے عوام کا اعتماد ہی بحال نہیں کرنا ہے بلکہ اپنی پیش رو حکومت کی طرف سے چھوٹے بڑے مسائل اور مشکلات کا حل ڈھونڈتے ہوئے عوام کی اُمیدوں پر پورا اُترنا ہے۔ اس کے ساتھ کم و بیش ایک درجن اتحادیوں کے ووٹوں سے قائم اپنی حکومت کے استحکام اور اتحادیوں کی طرف سے خلوص نیت اور عزم و حوصلے کے ساتھ ان کا ساتھ دینے کے مضبوط تاثر کو بھی اُجاگر کرنا ہے۔ یقینا یہ معاملات و مسائل ایسے نہیں ہیں جن کو نظر انداز کیا جا سکے یا ان کے ہوتے ہوئے تھوڑے وقت میں اچھی حکمرانی کو سامنے لایا جا سکے۔ 
میاں شہباز شریف کی حکومت کو تحریک انصاف کی اپنی پیش رو حکومت کی طرف سے ملنے والی مشکلات اور مسائل سے ہر کوئی بڑی حد تک آگاہ ہے۔ ملکی معیشت کی بدحالی، ہوشربا مہنگائی، حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی ، بجلی کے نرخوں میں اضافہ ، اس کی پیداوار میں کمی، ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کے کارخانوں کا بند ہونا اور علانیہ اور غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ میں آئے روز اضافہ، آئی ایم ایف کی طرف سے کڑی شرائط کا سامنا جن میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور بعض دوسرے ٹیکسوں میں اضافہ اور سبسڈیز کے خاتمے کے مطالبات سرفہرست ہیں۔ ایسے مسائل و معاملات ہیں جو بچے بچے کی زبان پر موجود ہیں۔ اس کے ساتھ عمران حکومت کے تقریباً ساڑھے تین سال کے عرصے میں ملکی اور غیرملکی قرضوں میں جو ریکارڈ اضافہ ہوا ہے تو ایسا پہلو ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینا کار دارد ہو چکا ہے۔ بگاڑ اتنا زیادہ ہے اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کی ترجیحات اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ ان سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ہے۔ 
معروضی صورتحال کا یہ ایک تشویش ناک پہلو ہے تو دوسری طرف میاں شہباز شریف کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے حوالے سے بھی کچھ مسائل سامنے آ رہے ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ کابینہ کی تشکیل میں تاخیر بھی ہوئی۔ حکومتی اتحاد میں شامل بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے حکومت کی تشکیل اور کابینہ میں بھرپور نمائندگی حاصل کرنے کے لیے اب تک جو رویہ اور انداز فکر و عمل اپنا رکھا ہے اس سے کسی حد تک یہ تاثر ضرور اُبھرتا ہے جیسے مسلم لیگ (ن) یا وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کے ہاتھ پیر بندھے ہیں اور ان کے لیے اپنی ان دو بڑی اتحادی جماعتوں کے مطالبات مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ حکومتی عہدوں کی تقسیم میں پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کا پلڑہ بھاری ہے ۔ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ نو یا دس وزارتیں حاصل کرنے کے ساتھ سپیکر قومی اسمبلی کا دستوری عہدہ بھی حاصل کر چکی ہے تو اس کے ساتھ اس نے چیئرمین سینیٹ اور گورنر پنجاب کے عہدے پر نظریں جما رکھی ہیں۔ واقفانِ حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ کلاں اگر صدر عارف علوی استعفیٰ دیتے ہیں یا دینے پر مجبور ہو جائے یا ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لاکر انھیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے تو پھر پیپلز پارٹی صدرمملکت کے طور جناب آصف علی زرداری کا انتخاب اپنا حق سمجھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے شائد پیپلز پارٹی سے وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ تاہم اس ضمن میں یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ آئین کے تحت صدر مملکت کے خلاف مواخذے کی تحریک قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل ارکان جو تعداد میں 441بنتے ہیںکی نصف تعداددستخطوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کی جا سکتی ہے اور اس کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے کل ارکان 441کے دوتہائی یعنی 294ارکان کی ضرورت ہوگی۔ بظاہر میاں شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے لیے اس تعداد کو پورا کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ خیر یہ معاملہ اپنی جگہ ایک معتبر اور مستند ذریعہ کے مطابق جب صدر مملکت کو مقتدر حلقوںکی طرف سے بتادیا گیا ہے کہ وہ مملکت کے صدر کی حیثیت سے کردار ادا کریں نہ کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن کی حیثیت سے تو ان کے رویے میں تبدیلی بھی آ چکی ہے۔ اس سیاق و سباق میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر عارف علوی اپنی بقیہ مدت صدارت پوری کیے بغیر ایوان صدر سے رخصت نہیں ہونگے۔ اس کے باوجود بہرکیف پیپلز پارٹی اگر صدر مملکت کے آئینی عہدے کے حصول کی خواہاں ہے تو مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اپنے قائد مولانا فضل الرحمن مدظلہ کے لیے صدر مملکت کے عہدے کے لیے اپنا حق سب سے بڑھ کر سمجھتی ہے۔ خیر یہ بعد کے معاملات ہیں فوری طور پر موجودہ گورنر پنجاب سرفراز طاہر چیمہ کو ہٹانے اور ان کی جگہ نئی تقرری کا معاملہ درپیش ہے۔ گورنر پنجاب کے عہدے پر پیپلز پارٹی اپنا نمائندہ لے کر آنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جنہوں نے بطور وزیرِ خارجہ حلف نہیں لیا ہے اور ان دنوں اپنے وفد کے ساتھ لندن کے دورے پر ہیں اور وہاں ان کی مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ کہا جار ہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف سے پیپلز پارٹی صدر مملکت اور گورنر پنجاب کے عہدو ں کے لیے ان کی بات بھی ہوئی ہے۔ ریاستی اور حکومتی عہدوں اور وفاقی کابینہ میں نمائندگی کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام جنہوں نے بلاشبہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے انتہائی جاندار کردار ادا کیا۔ انتہائی مضبوط اور حصہ بقدر جثہ سے بڑھ کر مقام ، گنتی اور مرتبے کی مالک ہیں جبکہ بہتر حکومتی کارکردگی اور ڈلیورنس (Deliverance)کا سارا بوجھ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف بالواسطہ طور پر مسلم لیگ (ن)کی قیادت پر ہے۔میاں شہباز شریف اس بوجھ کو اُٹھانے کی کتنی اہلیت، قابلیت، تحرک اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کا کچھ نہ کچھ مثبت اظہار اگرچہ سامنے آچکا ہے لیکن پھر بھی کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انھیں کتنی ہی طرح کے چیلنجز اور گوناگوں مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اور اپنے اتحادیوں اور اپنی ٹیم کے مخلصانہ تعاون اور ان تھک محنت اور لگن کے بغیر ان سے عہدہ برآہونا اور عوام کی توقعات پر پورا اترنا آسان نہیں ہوگا۔ 

مزیدخبریں