دنیا بھر میں آج کتابوں کا دن منایا جا رہا ہے

01:28 PM, 23 Apr, 2021

دنیا بھر میں آج کتابوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ کورونا کے دوران جہاں مایوسی، خوف و ہراس کا راج ہے وہاں ہی تنہائی میں کتابیں ہماری بہترین دوست، معاون ہیں، یہ وقت ہے کہ کتابوں کی افادیت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ 

ٹیکنالوجی اورانٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ کتب بینی کا رجحان پہلے جیسا نہیں رہا تاہم اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کتابوں کو اپنا اثاثہ تسلیم کرتے ہیں اور باقاعدگی سے کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے ہیں۔

کتابوں کے عالمی دن کا منانے کا مقصد اس دن کی اہمیت کے بارے میں دُنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ یوں تو دُنیا کے اکثر ممالک میں کتابوں کا عالمی دن 23 اپریل کو منایا جاتا ہے لیکن برطانیہ اور امریکہ میں کتابوں کا عالمی دن 4 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ 

 تاریخی لحاظ سے اس دن کی شروعات کچھ اس طرح ہوئیں۔ 1616 میں سپین کے شمال مشرق میں واقع علاقہ کیٹولینیا میں ہر سال 23 اپریل کو جہاں کے مرد اپنی عزیز خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھول پیش کرتے تھے اور اس روایت میں دنیا بھر سے خاص طور یورپ سے لاکھوں کی تعداد میں مرد و زن اور لڑکے لڑکیاں کیٹولینیا جاتے ہیں یہ سلسلہ دو دن جاری رہتا ہے اس دوران جگہ جگہ مشہور ناول ڈان کیہوٹی کے حصے، شیکسپئر کے ڈرامے اور دوسرے مصنفوں کی کتابوں کے حصے پڑھے جاتے تھے۔

پھر یہ رسم سپین کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتی گئی اور آہستہ آہستہ یہ روایت ورلڈ بک ڈے کی شکل اختیار کر گئی۔ اب کیٹولینیا میں ہر سال صرف گلابوں ہی کی نہیں کتابوں کی بھی ریکارڈ فروخت ہوتی ہے اور اس کے بعد 1995 میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونسکو کی جنرل کونسل کا فرانس میں اجلاس ہوا تو اس نے 23 اپریل کو ’ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے‘ قرار دے دیا اور اب یہ دن کتابوں اور جملہ حقوق کی حفاظت کے عالمی دن کے طور پر دُنیا کے ایک سو ملکوں میں منایا جانے لگا۔

اس میں ایک اور اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ رواں صدی کے آغاز سے کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارالحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ دوہزار ایک کا میڈرڈ تھا، پھر بالترتیب سکندریہ، نئی دہلی، اینٹ روپ، مونٹریال، ٹورِن، بگوٹہ، ایمسٹرڈم اور بیروت دارالحکومت قرار دیے گئے۔ برطانیہ نے اس دن کے لیے مارچ کی پہلی جمعرات کا انتخاب کیا اور اسے سکولوں کے بچوں میں کتابیں خریدنے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

 انڈیا میں کتابوں کا حال پھر بھی قدرے بہتر ہے لیکن یہ بہتری انگریزی کے بعد ہندی تک محدود ہے۔ دور جدید میں اگرچہ مطالعہ کے نئے میڈیم متعارف ہوچکے ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے نسل نو کو کتاب سے دور دھکیل دِیا۔ کتابوں سے دوری علم سے دوری ہے۔ علامہ اقبال  نے فرمایا تھا کہ :

مگر وہ عِلم کے موتی  کتابیں اپنے آبا  کی 

 جو دیکھیں ان کویورپ میں تو دِل ہوتا ہے سیپارا

 کتاب کی اپنی دائمی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہی نہیں بلکہ اس میں حد درجہ اضافہ ہورہا ہے۔

دُنیا بھر میں کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی کے شائقین کی تعداد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں کتابیں زیور اشاعت سے مزین ہورہی ہیں اور بے شمار لائبریریاں معرضِ وجود میں آرہی ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کتاب اور انسان کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ۔ تہذیب کی روشنی اور تمدن کے اجالے سے جب انسانی ذہن کے دریچے بتدریج کھل گئے تو انسان کتاب کے وسیلے سے خودبخود ترقی کی شاہراہ پر قدم رنجہ ہوا۔

سچ مچ کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ وہ شاہ کلید آگئی جس نے اس کے سامنے علم و ہنر کے دروازے کھول دیے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے، سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق اس کے رگ و پے میں سرایت کردیا۔ جوں جوں یہ شوق پروان چڑھتا رہا کتاب اس کے لئے ایک مجبوری بنتی گئی، کیونکہ یہ اسی کتاب کی کرامت تھی کہ انسان کے لئے مطالعے اور مشاہدے کے بل پرنئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا، علم و فن نے اس کی ذہنی نشو و نما، مادی آسائشیں اور انقلابِ فکر ونظر کا سامان پیدا کیا۔

غرض کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہمسفر بن گئی۔ کتاب کی اس ابدی اہمیت کے زیر نظر زندہ قوموں کا شعار بلکہ فطرت ثانیہ ہوتی ہے کہ وہ کتب خانوں کو بڑی قدر و منذلت دیتے ہیں۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں امریکہ میں لائبریری آف کانگریس اور برطانیہ میں برٹش میوزیم لائبریری ان دو قوموں کے واسطے فکری اساس یا شہ رگ بنی ہوئی ہیں۔ یہی علم پرور ادارے ان کو خیالات کی نئی وسعتوں میں محو پرواز رکھتے ہیں، قوم و ملت کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں منزل مقصود تک پہنچانے کے ضمن میں ان لائبریروں کی کروڑوں کتابیں خاموشی سے راہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔

ان قوموں کے باشعور عوام میں لائبریری تحریک کا ایک منظم سلسلہ بھی موجود ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں جو پبلک لائبریریاں موجود ہیں ان میں کتابیں تو موجود ہیں مگر یہ سب برسہا برس سے گرد آلودہ ہیں کیونکہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ اس معاملے میں ماضی کے عین برخلاف اب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنا تضیع اوقات کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ تعلیمی اداروں میں کم و بیش لائبریریاں زیر استعمال رہتی ہیں مگر ان کا استفادہ صرف نصابی سرگرمیوں کی حد تک کیا جاتا ہے جبکہ نصاب کی حدود سے آگے اچھی اور مفید کتابوں کا مطالعہ طلباء اپنے لئے شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔

حالانکہ ذوق مطالعہ کو جلا بخشنے والی کتابوں کا مطالعہ ہی زیادہ تر کسی طالب علم کو علم کی روشنی سے متعارف کراتا ہے۔ عالمی یوم کتب کے حوالے سے تقاریب کا اہتمام ہورہا ہے، ان کا محض مقصد خانہ پری نہیں بلکہ عوام الناس میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے اور صحت مند کتابوں کے مطالعہ کی طرف انہیں راغب کرانا ہوناچاہیے۔ اس سلسلے میں متذکرہ محکمہ پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہاں یہ تلخ نوائی معاف کی جائے کہ اس محکمے کے زیر اہتمام اگرچہ ریاست بھر میں بشمول سرحدی علاقہ جات لائبریریوں کا جال موجود ہے مگر اکثر و بیشتر یہ بند رہتی ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں طالب علموں اور عام پڑھے لکھے لوگوں کو کتب بینی کا شوقین اور دلدادہ بنانے کے لئے منظم کاوشیں کی جائیں وہاں پبلک لائبریریوں کے عملہ میں فرض شناسی اور جوابدہی کو یقینی بنایا جائے تب جاکر ورلڈ بک ڈے کے اصل گوہر مقصود کا حق ادا کیا جاسکتے ہیں کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔ انسان جب کبھی بھی تنہا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں کتابیں ہی انسان کا دل بہلاتی ہیں۔ کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔

گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں بیالیس فیصد کتب بین مذہبی ’بتیس فیصد عام معلومات یا جنرل نالج‘ چھبیس فصد فکشن اور سات فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔

 گیلپ پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے ایک اور سروے کے مطابق ملک میں 39 فیصد پڑھے لکھے افراد کتابیں پڑھنے کے دعویدار ہیں جبکہ 61 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ کتابیں نہیں پڑھتے ہیں۔

 پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی ’صارفین کی کم قوت خرید‘ حصول معلومات کے لئے موبائل ’انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال‘ اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان ’حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کے لئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔

مزیدخبریں