اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان قاضٰی فائز عیسیٰ نےفیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لیے مقررکردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کی سربراہی میں 28 ستمبر کو فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کر یگا جبکہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ بھی بینچ میں شامل ہوں گے۔
پاکستان بارکونسل کی جانب سے گزشتہ روزکیس مقررکرنے کی درخواست کی گئی تھی.
یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل 2 رکنی بینچ نےفیض آباد دھرنے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے خلاف وزارت داخلہ سمیت متعلقہ فریقین نے 15 اپریل 2019 کو نظرثانی درخواست دائرکی تھیں.واضح رہے کہ اس سلسلسے میں وزارت دفاع، پیمرا اور آئی بی کی جانب سے بھی نظرثانی درخواستیں دائرکی گئی تھیں.
43 صفحات پر مشتمل فیصلہ کہا گیا ہے کہ شہریوں کو سیاسی جماعتیں بنانے اور ان کا رکن بننےکا حق حاصل ہے اور ہر شہری اور سیاسی جماعت کو اجتماع اور احتجاج کا حق حاصل ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اجتماع اور احتجاج پُرامن اور قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے جس سے دیگر شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت متاثر نہ ہو۔ دیگر شہریوں کے آزادانہ حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قائداعظم کے فرمودات پڑھ کر سنائے اور کہا قائداعظم نے فرمایا مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں غصے پر قابو رکھیں، ردعمل عقلی دلیل کے تابع ہونا چاہیئے۔ قائداعظم نے فرمایا ردعمل سے ریاست کو خطرات میں نہیں ڈالنا چاہیئے اور لاقانونیت ملک کی بنیادیں ہلا دے گی۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ریاست کا رویہ غیر جانبدار اور شفاف ہونا چاہیے جبکہ قانون کا اطلاق حکومت اور حکومتی اداروں پر یکساں طور پر ہوتا ہے۔ سانحہ 12 مئی کے ذمہ دار حکومتی عہدیداروں کو سزا نہ ملنے سے غلط روایت پڑی۔ سانحہ 12 مئی میں ریاست کی ناکامی نے دیگر لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے تشدد کی راہ دکھائی۔
دھرنے کی قیادت نے ملک میں نفرت کو ہوا دی اور مظاہرین نے شہر کی سڑکوں پر قبضہ کر لیا۔ گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور دھرنے کی وجہ سے 8 سال کے بچے کی جان چلی گئی۔ لوگوں کے بنیادی حقوق چھیننے پر ذمہ داران کا ٹرائل ہونا چاہیے تھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ دھرنے میں 16 کروڑ 39 لاکھ 52 ہزار روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو روک دیا گیا جس سے 88 ارب سے زائد کا نقصان پہنچا۔ ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہی۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی اور ریاستی اداروں کے درمیان تعاون کا فقدان تھا۔
فیصلے مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن متعلقہ قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے والی سیاسی جماعت کیخلاف کارروائی کرے اور کارروائی رسمی نہیں ہونی چاہیے اور ہر سیاسی جماعت اپنے ذرائع آمدن سے متعلق جواب دہ ہے۔