پاکستان میں چاروں صوبوں میں سیلاب تباہ کاریوں پربہت کچھ لکھاگیا،بہت کچھ ٹی وی چینل پر آن ائرہوا،دنیا متوجہ ہوئی،مختلف ممالک نے اپنی حدتک جوکچھ ممکن ہوسکتاوہ کیااورکربھی رہے ہیں،لیکن بنیادی طورپرجس قدربڑا نقصان ہوا ا س کے مقابلے میں متاثرین کی امدادممکن نہیں ہوسکی،گھروں کی تعمیر،عوام کی آباد کاری (بحالی)کے معاملات ابھی بہت دورہیں،فی الحال تو بے بس عوام کھلے آسمان تلے بیٹھے دووقت کی روٹی کوترس رہے ہیں،وفاقی حکومتیں اورصوبے جوکچھ کرسکتے تھے وہ اپنی جگہ ہے مگریہ حقیقت ہے کہ خیبرپختونخواہ اورپنجاب کی حکومتیں وہ کچھ نہیں کرسکیں جس قدرنہیں اس کارخیرمیں اپنی ذمہ داریوں کونبھانے کیلئے آگے بڑھناچاہئے تھا،سندھ میں بڑی تباہی ہوئی،جہاں ریلیف کاکام وفاقی وصوبائی حکومت کے بس میں نہیں،لیکن اس کے باوجودوزیرشہبازشریف،وزیراعلیٰ سید مرادشاہ اوروزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری حقیقی معنوں میں میدان عمل تھے اورعوام کے ساتھ کھڑے ہیں،مخیرحضرات اوراداروں کویہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے اللہ کی رضا کیلئے متاثرین کی دل کھول کرمدد کی اس پراللہ ہی انہیں جزاد ے گا۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ریلیف اوربحالی بڑے ٹاسک ہیں،سیلاب کاعلاقوں میں زورٹوٹ رہاہے،پانی ڈاؤن سٹریم کی طرف بڑھ رہاہے لیکن اس کے باوجود شہروں کے شہرودیہات سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اورپھراوپرسے موسمی بیماریوں نے عوام کاجینادوبھرکردیاہے،بچے،بوڑھے،عورتیں متعدی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں،پہلے کورونانے ہماری قومی معیشت پرمنفی اثرات چھوڑے،جس کے آفٹرشاکس اب بھی جاری ہیں،اس پراب واٹربورن ڈیزیز(پانی سے پیداہونے والی بیماریاں)وہ اپنی جڑیں پکڑ رہی ہیں،جس سے کئی معصوموں کی جانیں گئیں،نئی صورتحال یہ ہے کہ موسم کی بدلتی ہوئی صورتحال نے حالات کومذید گھمبیرکردیاہے جس میں ڈینگی نے سراٹھالیاہے کیونکہ یہ موسم ڈینگی کی افزائش نسل کیلئے آئیڈیل ہوتاہے اورعوام کوبچانے کیلئے صوبوں کے پاس وسائل ہی نہیں، متعدی بیماریوں سے سندھ،خیبرپختونخواہ اورجنوبی پنجاب شدید لپیٹ میں ہیں،سندھ اورخیبرپختونخواہ میں ہیلتھ ڈلیوری سسٹم پہلے سے بوسیدہ ہے،کوئی مضبوط نظام موجود نہیں،سارا ہیلتھ ڈلیوری سسٹم کراچی اورایک آدھ شہرتک محدود ہے باقی سارا صوبہ بے یارومدگارہے،جولوگ اورحکومتی ادارے مدد کررہے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابرہیں۔
پنجاب میں سیلاب کی صورتحال جنوبی شہروں لیہ،ڈی جی خان،تونسہ،راجن پوراورروجھان سمیت بلوچستان سے ملحقہ علاقے ہیں جہاں لوگ سیلاب کے بعد بیماریوں سے مررہے ہیں، مگرصوبائی وسائل وہاں تک نہیں پہنچ رہے،ان متاثرہ علاقوں میں صحت عامہ کی سہولیات اگرچہ دیگرصوبوں سے بہت بہترہیں، ملتان، رحیم یارخان اور بہاولپور میں نشترہسپتال، بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال اورشیخ زید ہسپتال جیسے بڑے ٹیچنگ یونٹس ہیں،جہاں ہرطرح کی سہولیات ہیں مگرمتاثرہ علاقو ں میں اس سطح پرطبی عملہ موجود نہیں ہے،حالانکہ جنوبی پنجاب کادیگرصوبوں سے جانی ومالی نقصان کاتخمینہ بہت کم ہے لیکن پھربھی حکومتی ادارے ان صحت کے مسائل کوکنٹرول نہیں کرسکے،لوگ جسم میں کیڑے پڑجانے سے مررہے ہیں،پنجاب میں حکومت کی تبدیلی جیسے تیسے ہوئے وہ سیاسی معاملات ہیں مگرمجھے اس لحاظ سے خوشی تھی کہ سیکنڈری ہیلتھ کیئرکے حوالے سے جنوبی پنجاب سے تحریک انصا ف نے یہ اہم ذمہ دار ی صوبائی وزیراخترملک کوسونپی،خوشی اس بات کی تھی کہ وہ جنوبی پنجاب میں متاثرہ علاقوں میں صحت عامہ کی سہولتوں کوبہترکریں گے کیونکہ جنوبی پنجاب کاڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز کاسیکرٹریٹ الگ سے موجود ہے اوروہاں جنوبی پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والے ذمہ دارڈاکٹرکوڈی جی ہیلتھ (جنوبی پنجاب) تعینات کرکے اس صورتحال کوکنٹرول کریں گے مگرو ہ اس میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ طبی ماہرین کے مطابق وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرزجنوبی پنجاب کی موجودہ صحت عامہ کی محرومیوں کادرد اس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح جنوبی پنجاب کارہائشی ڈاکٹر سمجھ سکتاہے مگرکیاکیاجائے؟ ہرڈاکٹربڑے شہروں میں آناچاہتاہے،کوئی جنوبی پنجاب میں اپنے علاقوں کی خدمت کاخواہاں ہی نہیں بلکہ اسی جنوبی پنجاب کی خوشبو نے انہیں سنوارا اوراس قابل کیاکہ وہ اپنے پسماندہ علاقے کی خدمت کرے گا،افسوسناک امرہے کہ قریب ایک سال سے ڈی جی ہیلتھ (جنوبی پنجاب)کی سیٹ خالی پڑ ی ہے،کوئی اس پرتعینات ہونے کوتیارنہیں،ہرڈاکٹر کہتاہے ”لہورجانا اے لہور“،ماضی میں ڈاکٹریاسمین راشد کا بھی یہی مسئلہ تھا،جب وہ بطورڈاکٹر چکوال کے کوٹے (زون)سے بھرتی ہوئیں توان کی زندگی میں صرف ایک بارچندہ ماہ کیلئے راولپنڈی ٹرانسفرہوئی،لیکن وہ اپنے محکوم علاقہ کی خدمت سے محروم رہیں اورلاہورشہرمیں نوکری کرتے کرتے ریٹائرڈ ہوئیں،وہ توبھلاہوسابق وزیرصحت پروفیسرمحمود احمد مرحوم کا جنہوں نے انہیں تبدیل کیا،لیکن اب جناب اخترملک کاامتحان ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے عوام کی مودجودہ صورتحال میں خدمت میں اس زون سے بھرتی ہونے والے ڈاکٹرزکوواپس جنوبی پنجاب بجھوائیں،جوان کی بڑی نیکی ہوگی۔اس کے لئے و ہ کسی دباؤمیں نہ آئیں۔یہ خدمت کیساتھ ان کی سیاسی وکٹ بھی ہے جہاں انہیں عوام کی خدمت کرناہے اوراس ضمن میں سیکنڈری ہیلتھ کی وزارت بڑی معاون ثابت ہوگی،اس لئے وہ ٹرانسفرپوسٹنگ میں سیاسی مصلحتوں کی بجائے میرٹ کومدنظررکھیں۔
پنجاب حکومت میں چیف سیکرٹری کامران علی افضل اورسی سی پی اولاہورغلام محمودڈوگرکی تبدیلیوں پروفاق اورپنجاب آمنے سامنے ہیں،بنیادی طورپریہ سیاست ہے،یہ ایسے ہی چلتی رہے گی جس میں مزید کئی بیوروکریٹ زیرعتاب آئیں گے اورکئی ابھرکرسامنے آئیں گے لیکن اس میں اصل بات یہ ہے کہ حمزہ شبہازکی حکومت کے خاتمے اورچوہدری پرویزلٰہی کی حکومت آنے کے دوران مختلف فرض شناس،محنتی اورقابل افسران کی مختلف تقرریوں کے حوالے سے ایک فہرست بنائی گئی تھی حکومت کوچاہیے کہ اس فہرست میں شامل افسران کومیدان میں لایاجائے تاکہ عوام کے مسائل حقیقی معنوں میں حل ہوں،ان میں افسران میں بیوروکریٹ،پولیس افسران،ڈاکٹرز اوردیگرمحکموں کے افسران شامل ہیں جن کی تقریوں کی منظوری ہوچکی تھی مگرحکومت بدل گئی،لیکن یہ فہرست اچھے افسران پرمشتمل ہے یہ حمزہ شہبازکی فہرست ہے نہ چوہدری پرویزالٰہی کی،بلکہ ریاست کے وفادارافسران کی فہرست ہے۔