آج تحریک آزادی کے ایک عظیم مجاہد رائے احمد خاں کھرل کا یومِ شہادت ہے۔ رائے احمد خاں نے اپنی تلوار سے نہ صرف انگریزوں بلکہ ان کے گماشتوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخر میں چند ٹکوں کے عوض بکنے والے اپنے ہی میر جعفروں کی غداری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ آج ہمیں نصابی کتب میں ایسے شہید کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ تب کے غداروں کی اولادیں آج کے مصاحب میں شمار ہوتی ہیں۔
آج کل ہماری سیاست میں غداری اور حب الوطنی کے میڈل جوتیوں میں بانٹے جا رہے ہیں اور اس کام میں انگریزوں کے چاکر اور قوم کے غدار جو آج کل اعلیٰ سیاسی و انتظامی عہدوں پر فائز ہیں بھی پیش پیش ہیں۔ ایک اور نعرہ بھی مقبول ہو رہا ہے کہ ”کیا ہم غلام ہیں“ لیکن تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس وقت کے انگریزوں کے چاکر، غلام اور غدار آج ہماری اشرافیہ کے ہراول دستے ہیں جبکہ انگریز سرکار کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو ڈاکو بنا کر پیش کیا گیا۔ آج کے جمہوری حکمران اپنا بیانیہ بیچنے کے لیے میڈیا کو خریدتے اور استعمال کرتے ہیں جبکہ ماضی کے حاکم تاریخ دان کو خرید کر جھوٹ سے آلودہ مسخ شدہ تاریخ ہی ہمارے لیے چھوڑ گئے۔ لیکن سچ پھر سچ ہے جتنا دباؤ گے باہر آہی جاتا ہے۔
ہندوستان میں انگریز کی غلامی کے خلاف جنگ آزادی کی تاریخ بہت طویل ہے اور اس میں ایسے بھی مجاہدین ہیں جو حسینی روایت پر عمل کرتے ہوئے آخری سجدہ ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے ان میں ایک نام رائے احمد خاں کھرل شہید کا ہے جو انگریز غلامی کے خلاف لڑتے ہوئے حالت نماز میں شہید ہوا۔ رائے احمد کھرل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں اور ان کی تاریخ ہمارے نصاب کا حصہ بھی نہ بن سکی۔ کیونکہ اس وقت کے انگریزوں کے پٹھو اپنی قوم سے غداری کے عوض جاگیریں پانے والے گدی نشین، جاگیردار اور غدار آج ہمارے حکمران ہیں۔ ان میں دیگر کے علاوہ اس وقت کے کئی سجادہ نشین جن میں اس وقت کے شاہ محمود قریشی بھی ہیں جو کہ تحریک انصاف کے موجودہ شاہ محمود قریشی کے اجداد میں سے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ کے ایک اور کردار فخر امام کے اجداد بھی انگریز کی چاکری کرتے ہوئے مجاہدین کے قتل عام میں پیش پیش تھے۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا جو سیکڑوں مجاہدین کے قتل میں ملوث تھا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔
رائے احمد خاں کھرل (1776-1857) 1857 کی جنگ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں مقامی قبیلوں کی برطانوی راج کے خلاف بغاوت (گوگیرہ بغاوت) کے رہنما اور سالار تھے۔ 21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب ’نورے دی ڈل‘ کے مقام پر دورانِ نماز احمد خاں پر حملہ کر دیا۔ احمد خاں اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا جو اب ضلع فیصل آباد میں واقع ہے۔ 1776 میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونے والے رائے احمد خاں میں انگریز کی غلامی کے خلاف دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
1857 کی جنگ آزادی کے دوران جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ انگریز سرکار کی جانب سے لارڈ برکلے کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا۔ جون کی ایک صبح، برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ بغاوت سے نبٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خاں نے جواب دیا: ”صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا“ اور یہ کہہ کر حکومت برطانیہ کی اطاعت کو رد کر دیا۔
اس کے بعد برکلے نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ دہشت پھیلانے کیلئے کچھ مجاہدوں کو پھانسی بھی دے دی۔
برکلے یہ کارروائی کر رہا تھا تو دوسری طرف احمد خاں کھرل نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا۔ چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ 26 جولائی 1857 کو رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑا لے گیا۔ احمد خاں اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے انگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خاں گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ انگریزوں نے جنگ آزادی کے مجاہدین کے اہل خانہ کو اٹھا لیا۔ بات گھر تک آ پہنچی تو مقامی سرداروں نے اکٹھ کیا۔ نورے کی ڈل نامی اس جگہ پہ، راوی کے سب سردار اکٹھے ہوئے۔ ان میں وٹو، قریشی، مخدوم اور گردیزی بھی شامل تھے۔ انگریزوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں کچھ لوگ تو احمد خاں کے ساتھ ہو گئے اور کچھ نے اس کو مشورہ دیا کہ سرکار سے جنگ نہیں کی جا سکتی۔
ہر دورمیں میر جعفر و میر صادق ہوتے ہیں اور رائے احمد کھرل کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اکٹھ میں بڑھ بڑھ کر بولنے والے کمالیہ کے سردار سرفراز کھرل، جو میر جعفر ثابت ہوا، نے رات پڑتے ہی گھوڑیاں سیدھی کیں اور گوگیرے بنگلے جا پہنچا۔ رات کے دو بجے تھے جب برکلے کو جگا کر سب کچھ بتا دیا۔ اس مُخبری پر 17 ستمبر کو برکلے کی انگریزی فوجوں نے جھامرے پر چڑھائی کر دی لیکن رائے احمد خاں کھرل گرفتار نہ ہو سکا۔ 21 ستمبر 1857 کو ایک بڑا معرکہ ہوا۔ ظہر کے قریب، دھوئیں اور بادل کے ساتھ ساتھ انگریز فوج بھی چھٹ گئی۔ سردار نے وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ برکلے بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ آس پاس چھپا تھا۔ وہ دوسری رکعت تھی جب ایک سپاہی نے برکلے کو درخت کی اوٹ سے رائے احمد خاں دکھایا۔ صاحب نے ”گولی مارو“ کا آرڈر دیا اور دھاڑے سنگھ یا گلاب رائے بیدی میں سے کسی ایک نے گولی چلا دی۔ ان کے ساتھ ان کا بھتیجا مراد کھرل اور سردار سارنگ بھی شہید ہوئے۔
فتح کی نشانی کے طور پہ انگریز افسر رائے احمد شہید کا سر کاٹ کر لے گئے۔ انگریز سرکار نے پہلے جھامرے کو آگ دکھائی، پھر وٹوؤں کے کئی گاؤں نذر آتش کیے اور آخر کار پنڈی شیخ موسیٰ تک پہنچ گئے۔ دریا پار کرنے کی نوبت آئی تو دور جاٹوں کے بلارے سنائی دیتے تھے۔ برکلے نے خیال کیا کہ احمد خاں کے بعد اسے روکنے والا کوئی نہیں لہٰذا اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ تھوڑا آگے چل کر گھوڑا ذرا ٹھٹھکا اور پھر الف ہو گیا۔ پانیوں سے مراد فتیانے نے اٹھ کر برکلے کو پہلا نیزہ مارا۔ مراد فتیانہ، داد فتیانہ، احمد سیال اور سوجا بھدرو نے پے در پے وار کر کے برکلے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے سردار کا بدلہ لے لیا اور انگریز سپاہ تتر بتر ہونا شروع ہو گئی۔
جھامرہ کے قصبے میں احمد خاں کھرل کا مزار ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب پنجاب کی مائیں، احمد خاں کھرل کی کہانی لوریوں میں سنایا کرتی تھیں۔ رائے احمد خاں کھرل کے سر کو دن کے وقت گوگیرہ جیل کے سامنے لٹکا دیا جاتا اور رات کو جیل میں کڑے پہرے میں رکھا جاتا۔ پہرے کی باری آئی تو سپاہی نے سر اتار کر گھڑے میں رکھا اور جھامرے لے آیا۔ یہ گرفتاریوں کا دور تھا اور سائے سے بھی مخبری کا خطرہ رہتا تھا سو سپاہی نے رات کے اندھیرے میں احمد خاں کی قبر ڈھونڈھی اور کسی کو بتائے بغیر سر دفنا کر لوٹ گیا۔
کئی دہائیوں بعد جب دوسری نسل جوان ہوئی تو ملک آزاد ہو چکا تھا۔ پوتے کو دادے احمد خاں کی قبر پکی کرانے کی سوجھی۔ قبر کے ارد گرد بنیادیں کھودی جا رہی تھیں کہ ایک کدال گھڑے کو لگی۔ مزدوروں نے گھڑا توڑا تو اندر سر تھا۔ رائے احمد خاں کے پوتے نواب احمد علی خاں نے جنازہ پڑھایا۔ سر تو جسم کے ساتھ دفن ہو گیا مگر کہانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھاٹوں کے لب و لہجے میں محفوظ ہو گئی۔ کارل مارکس بھی ”ساہیوال کے ان شہیدوں“ کا تذکرہ کرتا ہے۔
انگریزوں نے زمین کے ان بیٹوں کا لہو بہانے کا معاوضہ بھی زمین کی صورت میں ہی چکایا۔ پنجاب کی بغاوت کی رپورٹیں پڑھی جائیں تو ملتان کے گردیزیوں سے بار کے سیدوں تک تمام نام، پٹڑی کے ساتھ ساتھ سر سبز زمینوں کے مالکان کے ہیں جبکہ مجاہدین کے قبائل اور اولادوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ مراد فتیانہ کے بھائی نے بہاولپور کے نواب کو خط لکھا کہ مجھے اسلحے اور ہتھیاروں کی مد میں کچھ مالی امداد درکار ہے۔ نواب صاحب نے مدد تو خیر کیا کرنا تھی، الٹا چٹھی لے کر انگریز سرکار کے پاس چلے گئے۔ یہ چٹھی آج بھی پنجاب کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑی حکمران مزاجوں کا مذاق اڑاتی ہے۔
تہی دست قبائل کا یہ 80 سالہ سردار جس وقت قومی غیرت کا نشاں بنے سامراج کے سامنے سینہ سپر کھڑا تھا۔ عین اسی وقت کچھ درگاہوں کے سجادہ نشین جاگیروں اور نقدی مال و زر کے عوض قومی غیرت و حمیت انگریز سامراج کے قدموں میں نچھاور کیے جا رہے تھے۔
10 جون 1857 کو ملتان چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان میں واقع پل شوالہ پر دربار بہاء الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی موجودہ شاہ محمود قریشی کے اجداد میں سے تھے اور ان کا نام انہی کے نام پر رکھا گیا ہے۔
کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا۔ مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگیں لگا دیں کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔
مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کورنگا کی طرف نکل گئی، جسے مہر شاہ آف حویلی کورنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال، ہراج، سرگانہ اور ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔
افسوس کہ 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی چنگیزیت کا نشانہ بننے والی اور گزشتہ 150 سال تک ظلم کی چکی میں پسنے والی اس علاقے کی برادریوں کی کوئی تاریخ مرتب نہیں کی گئی۔ بہت سے لوگ انگریز کے مظالم سے بچنے کے لیے کھرل سے ”کھر“ اور ”ہرل“ کہلانے لگے۔ ان علاقوں کی سرحدوں پر آباد کھرل اور دوسرے قبائل کی زمینیں چھین کر انگریزوں کے مخبروں کو الاٹ کر دی گئیں جن پر وہ آج بھی قابض ہیں۔
بشکریہ اسلم ملک صاحب: وہ فیس بک پر اکثر تاریخ کے اوراق ٹٹولتے ٹٹولتے گمنام اور حقیقی ہیروز کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔
منٹگمری گزیٹئر میں لکھا ہے کہ ”احمد خاں کھرل ایک غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک، دلیر اور ذہن رسا کا مالک انسان تھا۔ اس کی قیادت میں ستلج اور راوی کے تمام نامور قبائل متحد ہو کر بغاوت میں شریک ہوئے ان کا ہیڈ کوارٹر راوی کے اس پار کوٹ کمالیہ تھا۔“ لیکن آج کے حکمرانوں کو احمد کھرل کا نام بھی پتہ نہیں بلکہ وہ اس ملکہ کی آخری رسومات میں شریک ہیں جو خود اور اس کے اجداد ہمارے لاکھوں مجاہدین کے قاتل ہیں۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔