نئی دہلی: انتہا پسند مودی سرکار نے ایک بار پھر سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ بھارت میں ممتاز اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ بھارتی علاقے میرٹھ سے تعلق رکھنے والے معروف مسلمان عالم دین پر تبدیلی مذہب کے حوالے سے کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
بھارت کے مؤقر نشریاتی ادارے انڈیا ٹوڈے اور ہندوستان ٹائمز کے مطابق مولانا کلیم صدیقی پر تبدیلی مذہب کرانے کا الزام عائد کر کے اترپردیش کی اے ٹی سی نے گرفتار کیا ہے۔ اس ضمن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نظم ونسق پرشانت کمار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ بیرون ملک فنڈنگ کے تحت ملک میں مبینہ تبدیلی مذہب کرانے والے گروہ کا پولیس نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا تھا اور 20 جون کو اس سلسلے میں 10 افرا د کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مولانا کلیم صدیقی کو اسی سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
پرشانت کمار نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مولانا کلیم صدیقی مبینہ طور پر تبدیلی مذہب کے کام میں ملوث ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس کے لیے بیرون ملک سے فنڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ سماجی اداروں کی آڑ میں کیا جارہا ہے لیکن جب پولیس نے تحقیقات کیں تو حقائق سامنے آئے جس پر کارروائی کی گئی ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پرشانت کمار نے الزام عائد کیا کہ اس کام میں ملک کے کئی معروف لوگ اور ادارے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مولانا کلیم صدیقی ہندوستان کا سب سے بڑا تبدیلی مذہب سنڈیکیٹ چلاتے ہیں اور غیر مسلموں کو گمراہ کر کے اور ڈرا دھمکا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں۔
پرشانت کمار نے کہا کہ ہماری تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے گرفتار عمر گوتم اور اس کے ساتھیوں کو ایک برطانوی تنظیم کی جانب سے تقریباً 75 کروڑ روپے کی فنڈنگ کی گئی تھی۔
اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کے صدر محمد سلمان نے اسلامک اسکالر کلیم صدیقی کی گرفتاری پر کہا ہے کہ معروف عالم دین مولانا کلیم صدیقی اوران کے ساتھیوں کی گرفتاری ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے بین المذاہب مکالموں کو روکنے اور یوپی انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی ایک اور کوشش ہے۔ انہوں نے گرفتاری کے حوالے سے درج ایف آئی آر کو بھی جعلی اور فرضی قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ممتاز مسلمان رکن پارلیمنٹ اویس الدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ کو بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے توڑ پھوڑ کا نشانہ بنا یا گیا تھا۔