آزاد کشمیر کے ضلع باغ سے ایک دیرینہ قاری سیّد غلام رسول گردیزی کا سوال موصول ہوا۔ لکھتے ہیں‘ اگر ایک شخص کی فطرت میں برائی ہے تواِس میں اُس کا کیا قصور؟ اور ایک شخص کی فطرت میں نیکی ہے تو اِ س میں اُس کا کیا کمال؟ جب کوئی بھی اپنی فطرت کا خود خالق نہیں پھراُس کے اچھے برے عمل پر جزا سزاچہ معنی دارد؟
یہ سوال محض کتابی نہیں کہ اِس پر کتابی دلائل کے انبار لگا دیے جائیں۔ سوال کرنے والا نوجوان فی الواقع سمجھنا چاہتا ہے کہ اُس کے اختیار کی حد کیا ہے اور کہاں تک ہے، وہ سمجھنا چاہتا ہے کہ کسی کو بدفطرت کیوں کہا جاتا ہے، اگر فطرت کا خالق وہی فاطر ہے تو وہ ذات سراسر خیر ہے، بدی کی تخلیق اُس سے کیوں منسوب کی جاتی ہے؟
شاہ صاحب! ہم ایسے نافہم لوگ یوں ہی منہ پھاڑ کر کسی کو بد فطرت کہہ دیتے ہیں، جسے ہم ”بد“ کہہ رہے ہیں‘ وہ بھی ہمیں نیک کہاں سمجھ رہا ہے۔ عام طور پر ہم اپنے مفاد اور مزاج کے برعکس کسی شخص کے رویے کو"بدی" سے تعبیر کرتے ہیں، اس تعبیر میں تقصیر ہماری ہے۔ جو شخص ہمارے علم، رواج، شعور اور مزاج پر پورا اُترتا ہے‘وہ ہماری دانست میں ”نیک فطرت“ہے‘ حالانکہ حقیقت اِس کے بر عکس بھی ہو سکتی ہے۔ لازم نہیں کہ ظاہر‘باطن کا ترجمان ہو۔ فطرت کا تعلق باطن سے ہے۔ باطن کا ظاہر میں پھوٹنا فطرت ہے۔ ظاہر میں اِس مظاہرے کو محسوس کرنے کے لیے ہمارے پاس موجود حسیات اور عقلی آلات ہمیں حتمی نتائج نہیں دیتے۔ اگر ہم کلربلائنڈ ہیں تو ہر گلاب ہمیں بلیک اور وائٹ ہی دکھائی دے گا۔ باہر بکھرے ہوئے رنگوں اور مزاجوں کی خُوبُو ہم اپنی بصارت اور بصیرت کی مدد سے جانچتے ہیں۔ کسی کی فطرت کے نیک اور بد ہونے کی بابت فیصلے کے دن سے پہلے کوئی فیصلہ سنانا شاید بندگی کے باب میں حدّ ِ تجاوز ہے۔
آج سے کم و بیش پینتیس برس قبل مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے ایک کالم بعنوان "فطرت" تحریر کیا تھا، ازاں بعد‘یہ کالم آپؒ کے مجموعہئ مضامین " حرف حرف حقیقت " میں شامل کیا گیا۔ اس مضمون کا آغاز اور اختتام تو پہاڑ جیسے اٹل فقرے سے ہوتا ہے کہ اگر کوئی کہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو اسے مانا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کسی انسان نے اپنی فطرت بدل لی ہے تو اِسے نہیں مانا جا سکتا" اس فقرے کے بعد فقر کے بنیادی اصول بھی بیان کیے گئے ہیں‘ جن کی طرف کم کم لوگوں کی توجہ مرکوزہوتی ہے“ اسی مضمون میں بتایا گیا ہے کہ "اگر فطرت سے آشنائی ہوجائے تو دنیا میں کوئی کسی کا گلہ نہ کرے" ایک اور جگہ آپؒ نے فرمایا کہ جب تمہیں کسی کی فطرت کا پتہ چل جائے اور اِس کے بعد بھی تم نے اُس سے جھگڑا کیا تو یاد رکھو کہ تم نے فاطر سے جھگڑا کیا۔ فطرت کو اگر تقدیر کہہ لیا جائے تو تقدیر سے لڑنا قرین ِ دانش نہیں۔ مراد یہ کہ فطرت کا عرفان حاصل کرنے کے بعد ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے‘ یہ بابِ فقر ہے۔ چند نادان دوست بابا جی کا یہ فقرہ خوب لہک لہک کر ایک دوسرے کو سنا رہے ہوتے ہیں کہ ہم سفر اگر ہم خیال ہوں‘ تو منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ یار لوگ یہاں شریکِ سفر سے مراد شریکِ حیات لیتے ہیں، لیکن وہ مرشدؒ کی یہ ہدایت بھول جاتے ہیں کہ ہم سفر کو راضی رکھو‘ چاہے وہ ہم خیال نہ بھی ہو۔ یعنی لوگ اپنے مطلب کا فقرہ سنا کر بھاگ جاتے ہیں اور فقیری اُن سے بھاگ جاتی ہے۔
اللہ احسن الخالقین ہے‘ اُس سے حسن اور خیر ہی منسوب ہو سکتا ہے، برائی اور بدی کا انتساب اُس کی طرف کرنا سوئے اَدب ہے، فسق ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ مرشدی واصف علی واصفؒ اپنی گفتگو میں لفظ "بد" کبھی استعمال نہیں کیاکرتے تھے۔ یعنی خوبصورت کے مقابلے میں کسی کو بدصورت نہیں کہتے تھے بلکہ یوں کہتے" فرض کرو ایک شخص خوب صورت ہے اور دوسرا اُس کے مقابلے میں ذرا کم خوبصورت ہے"۔ درِ علمؓ سے علم وصول کرنے والوں کی شان نرالی ہوتی ہے…… اُن کی بات دلوں میں یوں دَر آتی ہے کہ زمانے کے شب و روزدرمیان میں حائل نہیں ہوتے۔
گردیزی صاحب کا سوال دراصل بہت پرانا سوال ہے، اس کے ڈانڈے جبر وقدر سے جا ملتے ہیں۔ اسے محض اتفاق کہیں، یا حسن ِ اِتفاق، یا پھر یکے اَز تصرفاتِ مرشد……یہ آپ کا حسن ِ خیال …… سوال موصول ہونے کے اگلے دن ہی اچانک "کشف المحجوب" کے ایک صفحے پر نظر پڑی، یہ نسخہ کلینک میں رکھا ہواتھا، اسے گھر لے جا رہا تھا، اِس صفحے پر ذکرِ آئمہ اور اہل بیت کے باب میں حضرت امام حسنؓ کا ایک نایاب خط نقل کیا گیا ہے، یہ خط آپؓ نے حسن بصریؒ کے ایک عریضے کے جواب میں تحریر فرمایا، اس مکتوب میں چند فقروں میں جبر وقدر کے لاینحل معمے کا ایسا شافی اور کافی حل بتا دیا گیا ہے کہ اہلِ فکر و فقر کے لیے تاقیامت مشعلِ راہ ہے۔ اپنے قارئین کی فکری بالیدگی کی غرض سے اِس مکتوب کا اُردو ترجمہ درج کیے دیتا ہوں۔جنابِ حسن بصریؒ کا خط پہلے ملاحظہ کرلیں:
”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔اے جگر گوشہئ رسول اور رسولؐ اللہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک! آپ پر رحمتیں برکتیں اور سلامتی ہو!! اَمّا بعد، آپ گروہِ بنی ہاشم ہمارے لیے ایسے سفینے کی مانند ہیں جو گہرے اندھیرے موجزن سمندر میں رواں ہے، آپ اندھیروں میں روشن چراغ ہیں، اور بلند عَلم ہدایت کے ہیں، آپ ہی ہم سب کے قائد اور امام ہیں۔ جس نے آپ لوگوں کی پیروی کی‘ وہ نجات پا گیا‘ جس طرح نوح علیہ السلام کی بھری ہوئی کشتی میں سوار ہونے والے اور اُن سے تمسک کرنے والے مومنین نجات پاگئے۔ پس! اے فرزندِ رسول! آپ کا کیا فرمان ہے‘ ہماری اس حیرت کے بارے میں جو ہمیں تقدیر اور اختیار کے متعلق لاحق ہوگئی ہے۔ اس بارے میں آپ کس رائے پر قائم ہیں۔ بلاشبہ آپ لوگ پشت دَر پشت ذریت ِ رسولؐ ہیں۔ پس! آپ ہمیں تعلیم فرمائیں‘ اُس علم سے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے، اللہ آپ لوگوں پر شاہد ہے اور آپ اللہ کی طرف سے لوگوں پر گواہ ہیں۔ والسلام!!“
جب یہ نامہ حضرت امام حسنؓ تک پہنچا تو اِس کے جواب میں آپؓ نے یہ تحریر فرمایا:
”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ امَّا بعد! تمہاری تحریر ہم تک پہنچی‘ جس میں جبر و قدر کے متعلق تمہاری حیرت اور اُن لوگوں کی حیرت کے بارے میں معلوم ہوا جنہیں تم ہماری اُمت میں گمان کرتے ہو۔ میں اِس کے متعلق جس رائے پر قائم ہوں‘ وہ یہ ہے کہ جو شخص اِس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ خیر وشر کی تقدیر اللہ کی طرف سے ہے‘ وہ شخص کافر ہے، اور جو شخص اپنے گناہوں کو اللہ کی طرف منسوب کرے‘ وہ فاجر ہے۔ اللہ نے اپنی اطاعت میں کوئی جبر نہیں رکھا اور بندے کا معصیت اختیار کرنا‘ اللہ (کی مشیت) کے غالب ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں کو اپنی سلطنت میں لامحدود اختیارات نہیں دیتا، وہ بندوں کی مِلک میں جو چیز بھی دیتا ہے‘ اُس کا حقیقی مالک وہ خود ہے اور اپنے بندوں کو وہ جو قدرت عطا کرتا ہے‘ اُس پر بھی وہ خودہی قادرہے۔پس! اگر بندے اطاعت کا ارادہ کریں‘ تو وہ انہیں راہِ اطاعت سے روکتانہیں اور نہ نیکی سے ہٹاتا ہے۔ اگربندے گناہ کی طرف آنے لگیں اور اللہ چاہے کہ اُن پر اِحسان کرے تو وہ ایسا کرسکتا ہے کہ بندے اور اُس کی معصیت کے کاموں کے درمیان میں حائل ہو جائے، لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُس نے انہیں گناہ پر مجبور کیا اور معصیت جبری طور پر اُن پر لازم کر دی۔بندوں پر اپنی یہ دلیل قائم کرنے کے لیے وہ اچھے اور بُرے راستے کی انہیں اچھی طرح پہچان کرا چکا ہے اور اِن راستوں پر چلنے کی طاقت اور اختیار بھی دے چکا ہے، اور اُن کے لیے اُس نے یہ سبیل پیدا کر دی کہ وہ دعوتِ حق کو اختیار کر لیں اور منع کیے ہوئے راستے کو ترک کر دیں۔ "وللہ الحجۃ البالغہ " (اور کامل ترین دلیل اللہ ہی کی ہے)“
اِس لازوال خط میں نہ صرف یہ کہ تدبیر اور تقدیر کے ایک قدیم اشکال کا حل پیش کر دیا گیا ہے بلکہ اِس باب میں توفیق ِ الٰہی کی حقیقت بھی کھول کر بیان کر دی گئی ہے۔ گناہوں سے محفوظ رہنا یوں توفیق ِ الٰہی سے ممکن ہو جاتا ہے اور اس میں انسان کے اختیار پر کوئی حرف بھی نہیں آتا۔ اس مکتوب کی تشریح کرتے ہوئے تقریباً چار سو برس بعد اُسی خانوادے کے ایک فرزند‘ صاحب ِ کشف المحجوب‘ سید ہجویر حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ بندہ اللہ کی طرف سے دی گئی استطاعت و استعداد کے مطابق اپنے عمل میں خود مختار ہے۔ تقدیر کا یکسر انکار کرنے والے قدریہ مذہب پر ہیں اور اپنی معصیت کو تقدیر کا فیصلہ سمجھنے والے جبریہ مذہب پر ہیں‘ جب کہ ہمارا دین جبر و قدر کے درمیان ہے۔