افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اس لیے ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وزراء افغانستان سے امریکی فوجی انخلا پر جشن منانے کے بجائے ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے محتاط گفتگو کریں اور بے جا طور پر اپنے آپ کو افغان امور کا ماہر ثابت کرنے لیے بے تکی باتوں سے اجتناب برتیں۔ بعض اوقات تو کئی وزراء کے طالبان کے حق میں بیانات سن کر خوف طاری ہو جاتا ہے کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں۔ طالبان کی تعریفیں خوشامدی کا مقصد کیا ہے کیا ہم ان باتوں کے ذریعے امریکہ کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ یقینا ہمارے وزراء کا یہ غیر ذمہ دارانہ اقدام ہمارے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ وزیر خارجہ تو وزیر خارجہ مشیر قومی سلامتی معید یوف بھی اس صف میں کھڑے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ وہ ہر اس حد کو کراس کر جاتے ہیں جہاں سے واپسی مشکل ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ہمیں امریکہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کیا دانائی نظر آتی ہے۔ ان پر انتہائی اہم باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کی دیکھا دیکھی صدر مملکت عارف علوی بھی اب میدان میں کود پڑے ہیں۔ کم از کم ان کو تو حالات کا ادراک ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے گرم جوشی میں وزیراعظم صاحب کے تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور یہاں تک پہنچ گئے کہ بیرونی دنیا کے سربراہان کو عمران خان کی شاگردی کرنے کی تجویز دے ڈالی۔ خدا کے لیے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ کے زخمی ابھی تازہ ہیں اور وہ آنے والے دنوں میں اپنی شکست کا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کرے گا اور ہم پر مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی عائد کرنے کی کوشش کرے گا۔ کچھ حلقوں میں تو یہ چہ میگوئیاں ہونا شروع
ہو چکی ہیں کہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر سبق سکھایا جائے۔ امریکہ کی طالبان سے شکست کے پیچھے پاکستان کی دوغلی پالیسی تھی۔ پاکستان نے ہم سے پیسے لیے اور اندر کھاتے طالبان کا ہمدرد تھا۔ یہ وہ خدشات ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ وزراء کو طالبان کے حق میں بیانات دینے سے تہی پہلو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ طالبان کے حق میں بیانات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ہم طالبان کی وکالت کر کے اس کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ گو طالبان افغانستان میں اب اپنی حکومت قائم کر چکے ہیں لیکن ان کے طور طریقوں سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ حکومت چلانے کے رموز اوقات سے مکمل طور پر عاری دکھائی دے رہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس معیشت کو مضبوط کرنے اور گورننس کے شعبوں میں کام کرنے کی کوئی مہارت اور تجربہ نہیں ہے۔ حالیہ دنوں افغانستان میں ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے جو طریقہ اپنایا گیا وہ نہایت ہی مایوس کن ہے۔ عوامی حکومتیں، عوامی رویوں کی حامل ہوتی ہیں۔ بلاشبہ طالبان کے حکومت میں آنے سے دو طرح کے رجحانات سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف اسلامی تحریکوں میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے تودوسری طرف ماضی کے طالبان کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے طالبان کو خطرے کی اک نئی لہر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اب یہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے اس تاثر کو اپنے عملی امن پسند اقدامات سے زائل کر دیں اور طالبان خطے کے امن کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرکے اس پروپیگنڈہ کو ختم کر دیں کہ طالبان شدت پسندی کے بل بوتے پر مذہبی رجحانات کو فروغ دے کر خطے کے امن کو تباہ کرنے والے ہیں۔ طالبان کی 21 ویں صدی کے جمہوری رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعتدال پسندی اور جمہوری رویوں کو اپنا کر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر طالبان ایسا کرتے ہیں تو ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ خود بخود دم توڑ جائے گا۔ طالبان رہنماؤں کو بخوبی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ گزشتہ ماہ افغانستان کی وزارت دفاع، خارجہ اور دیگر اداروں کے ملازمین کو تنخواہوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ کیونکہ معیشت نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ اس لیے بھی ہوا ہے کہ افغانستان کی معیشت ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کے قابل نہیں ہے۔ افغانستان میں مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملکی معیشت تو پہلے ہی دم توڑ چکی ہے اور رہی سہی کسر بڑھتی ہوئی پٹرول اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں سے پوری کر دی ہے اگر فوری طور پر اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو نہ روکا گیا تو معیشت مکمل طور پر بیٹھ جائے گی جہاں پر زبردستی کی حکومتیں ہوتی ہیں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ طالبان نے بندوق کے زور پر ہی حکومت کا نظام حاصل کیا ہے لیکن کبھی کبھی تو امریکہ کا ایکدم افغانستان سے انخلا کسی بڑی نئی گیم کا حصہ لگتا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ امریکہ نے فوری انخلا کیوں کیا ہے تاہم فی الوقت تو دیکھنا یہ ہے کہ اب افغانستان میں آنے والی تبدیلی کس کروٹ بیٹھتی ہے۔ بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ اس وقت افغانستان میں مشکلات کا جم غفیر اپنے پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی کسی بھی طرز کی صورت حال کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ ہم افغانستان کے طالبان کے حق میں جتنے مرضی جشن منائیں ان کو فاتح قرار دیں یا امریکہ کی شکست پر تالیاں بجائیں، قطع نظر ان سب باتوں کے طالبان کسی کے دوست نہیں ہیں۔ ان کی اپنی سوچ ہے۔ ان کا اپنا اسلام ہے۔ ان کے اپنے مفادات ہیں اور ان کا سوچنے کا انداز یقینا جمہوری رویوں کی نفی ہے۔ کل کا پتا نہیں تاہم آج طالبان صرف طالبان ہیں۔ جو فی الحال امریکی طیاروں پر پینگیں ڈال کر جھول رہے ہیں۔ آنے والے چند دنوں میں یہ معمہ بھی حل ہو جائے گا کہ طالبان ساتویں صدی کی طرز پر یا اکیسویں صدی کی طرز پر نظام حکومت چلانے کے حامی ہیں۔