سر آرٹھر کونان ڈائل کے ناول ”باسکر ویلز کا شکاری کتا“ میں شرلک ہومز غیر متوقع طور پر ڈاکٹر واٹسن کو آزاد تجارت کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہتے ہیں: ٹائمز اخبار کا اہم ترین آرٹیکل آزاد تجارت ہے، جوکہ میں تمہیں سناتا ہوں۔ یہ بات بظاہر خوش آئند لگتی ہے کہ ہماری خاص صنعت درآمدی محصولات عائد کرنے سے پھلتی پھولتی ہے؛ مگر اس قسم کی قانون سازی طویل المدت میں ملک آگے بڑھنے نہیں دیتی،اس سے ہماری درآمدات کی قدر گرتی او رجزیرے کی اجتماعی زندگی متاثرہوتی ہے۔ واٹسن، اس آرٹیکل کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟آیا اس آرٹیکل سے تم اتفاق کرتے ہو؟
یہ ناول 1901ء میں لکھا گیا تھا۔ آج 2021ء میں بھی ہم آزاد تجارت کی اہمیت پر بحث کر رہے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پال کروگمین کہتے ہیں کہ سابق صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر جو ٹیرف عائد کئے، توقع کے برعکس نتائج دے رہے ہیں۔ اس پر چین نے جوابی اقدامات کئے، جن کی وجہ سے سویا بین اور گندم کے برآمد بُری طرح متاثر ہوئی۔ امریکا کے جس صنعتی شعبے کی ٹرمپ بحالی چاہتے تھے، اس کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی، البتہ امریکی صارفین کیلئے بعض اشیائے ضرورت مہنگی ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف جوبائیڈن نے بھی اپنے دور اقتدار کے نو ماہ میں اس اہم مسئلہ کے حل کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس وقت صورت حالات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ کا سا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔
معاشیات کے پروفیسر آج بھی طلبہ کو پڑھاتے ہیں کہ اگر کوئی ملک اپنے تجارتی پارٹنر کی نسبت غریب ہو،اسے پھر بھی تجارت کرنی چاہیے۔
تجارت دونوں کو سہارا دے گی۔ امیر ملک ان مصنوعات کی تیاری اور برآمد پر زیادہ توجہ دے گا جنہیں وہ بہتر طور پر بنا سکتا ہے۔ پھر وہ سستی اشیا درآمد کرلے گا جن کی مقامی سطح پر پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ اسے تقابلی فائدہ کا قانون کہتے ہیں۔ حالیہ کچھ برس کے دوران تجارتی رکاوٹوں میں مسلسل کمی اور عالمی ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی کم ہوئے ہیں، اسے گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے۔ درحقیقت گلوبلائزیشن کا عمل اس وقت سے جاری ہے جب وینس کا سمندروں پر غلبہ اور مشرق سے ریشم اور تیار مصنوعات کے بدلے میں مصالحہ جات منگوائے جاتے تھے۔ 1789ء میں برطانوی مفکر جرمی بینٹم نے کہا تھا کہ آزاد تجارت کا فروغ جنگوں سے محفوظ بنا سکتا ہے۔ قوموں کا ایک دوسرے کی پیداواری اشیا اور مصنوعات پر انحصار انہیں قریب لا کر ہر قسم کے عناد کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر معاشیات ڈینی روڈرک کے مطابق ہم ”ہائپر گلوبلائزیشن“ کے دور میں رہ رہے ہیں۔ فارن افیئرز جرنل میں شائع اپنے مضمون میں وہ تجویز کرتے ہیں ”کچھ اور کرنے کے بجائے ہمیں اپنی قومی معیشت عالمی معیشت کی خدمت کیلئے پیش کر دینی چاہیے“۔ دراصل یہ کیفیت 1990ء کے دہائی کے بعد سے معمول ہے، جس میں انٹلیکچول پراپرٹی اور زرعی مصنوعات کی آزاد نقل وحرکت کے علاوہ زیادہ شرح سود کیلئے قلیل مدتی فنڈز کی بڑے پیمانے پر آزادانہ نقل وحرکت دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی معیشت میں مالیاتی اداروں کے کردار نے 1929ء کے کساد عظیم کے بعد بدترین مالی بحران پیدا کیا۔ 2008ء کے اس بحران کو عظیم جمود قرار دیا گیا؛ اس سے ورکنگ کلاس اور ترقی پذیر ممالک بری طرح متاثر ہوئے۔ اس کے نتیجے میں برطانیہ اور جرمنی نے کفایت شعاری کے ایک غلط پالیسی اختیار کی،البتہ امریکا میں صدر اوباما نے اس کے برعکس اقدامات کئے۔
کروگمین اور ڈینی روڈرک نے نکات اٹھائے ہیں، ان کا جواب وہ لچکدار اصول ہیں جن پر دوسری جنگ عظیم کے بعد بریٹن ووڈز کانفرنس میں حکومت کے نمائندوں نے اتفاق کیا اور عالمی معیشت کے اصول طے کئے۔ اس کانفرنس کے دوران ہونیوالی بحث میں برطانیہ کے عظیم ماہر معاشیات لارڈ مے نارڈ کینز چھائے رہے۔ وہ خسارے کے بجٹ پر یقین رکھتے تھے، خصوصاً ایسے حالات میں جب معیشت سست روی کا شکار اور بیروزگاری بڑھ رہی ہو۔ حکومتی اخراجات میں کٹوتی کے بجائے وہ معیشت میں اضافی اخراجات کے حامی تھے تاکہ معاشی نمو کی شرح کو تیز کیا جا سکے۔ لارڈ کینز نے سرمایہ کاری کو کنٹرول کرنے کے حق میں دلائل دیئے۔ اگر ان کی باتوں پر پہلے دھیان کیا گیا ہوتا تو دنیا کو 2008ء کے عظیم جمود کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
بدقسمتی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں خصوصاً مغرب کے پالیسی ساز بریٹن ووڈز کانفرنس کے اصولوں سے بتدریج دور ہو گئے۔ انہوں نے وہ تجارتی پالیسیاں اختیار کیں جوکہ بتدریج ہائپر گلوبلائزیشن کا پیش خیمہ بنیں مگر وہ ضروری اخراجات نہ کئے جو سستی درآمدات کے باعث مقامی ورکرز کو بیروزگاری سے بچانے کیلئے لازمی تھے۔ صرف سکینڈے نیویا کے ملکوں سے اس حوالے سے قابل ذکر اقدامات کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں بڑے پیمانے پر غربت نہیں، معیشت بھی متوازن اور سماجی سروسز کا نظام انتہائی مؤثر ہے۔ امریکا کی طرح منشیات کا بھی وہاں استعمال بہت کم ہے۔
(بشکریہ: انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون)