لاہور:پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹیٹوشنز (پامی) کے نو منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور پاکستان میڈیکل کونسل کے کھیل میں نجی میڈیکل اداروں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نجی میڈیکل کالجز سے سالانہ ڈیڑھ سے 2 ارب روپے وصول کرتی ہےلیکن ریسرچ کا کام کہیں نظر نہیں آتا ۔
پہلے اس کا حساب دیا جائے ۔ اگر اب ہمیں تنگ کیا گیا تو پہلے داخلے بند کریں گے،پھر کالجزکی تالہ بندی اور سرکاری اداروں کا گھیراؤ کریں گے۔پی ایم سی کے معاملے پر اس ہفتے اپنی سفارشات مرتب کرلیں گے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹیٹوشنز پامی کے نو منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹیٹوشنز کو مسائل کا سامنا ہے جبکہ 160 میں سے 110 نجی میڈیکل کالج ہیں۔ پامی نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کی نمائندہ تنظیم ہے جبکہ پامی ایک جمہوری اور منتخب باڈی ہے اور ہمارا پہلا مقصد کوالٹی ایجوکیشن کو فروغ دینا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ابھی بھی 30 چالیس سال پرانا سلیبس پڑھایا جا رہا ہے ہماری کوشش ہے کہ نصاب کو تبدیل کروایا جائے، ہمارا دوسرا مقصد قومی اور بین الاقوامی اشتراک کو بڑھانا ہے، ہمارے کالجز میں ہاورڈ سے پڑھے لوگ پڑھا رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپسی تجربات اور جدید مشینری سے سب فائدہ اٹھائیں تاکہ ہمارے پڑھے ہوئے طالبعلم کو کہیں کوئی مسئلہ نہ آئے ہمارا تیسرا مقصد ریسرچ کلچر کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ریسرچ کلچر کی طرف کسی نے کوئی توجہ نہیں دی اور 64 کالج سے سالانہ 5.5 انڈومنٹ فنڈ لیا جاتا ہے ہم یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کا کوئی کالج ہے یو ایچ ایس والے صرف امتحان لیتے ہیں اور وہ بھی پیپر لیک ہو جاتے ہیں، عالمی معیار کے مطابق 1 ہزار شہریوں پر 1 ڈاکٹر ہونا چاہیے لیکن ہمارے یہاں 25 سو پر بھی ایک ڈاکٹر نہیں ہے۔
پامی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نے بتایا کہ ورلڈ بنک نے کہا ہے کہ 24 کروڑ آبادی ہے اس کا مطلب 2 سے 3 لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے اورہمیں اچھے ڈاکٹر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اداروں کو پروموٹ نہیں کر رہے بلکہ حکومت کو چاہیئے کہ اداروں کو پروموٹ کرے، ہمارے لوگوں نے ساری ساری زندگیاں اس شعبہ کو دیں لیکن ہمارے لوگوں کی خدمات کی قدر نہیں کی جاتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہوش حیات کو تمغہ دے دیا جاتا ہے لیکن ہمارے قابل لوگوں کو نہیں دیا جاتا اور کتنے ہی حکومتی ادارے ہمیں چیک کرتے ہیں جتنا مرضی چیک کریں ہم نے معیار کو پورا کیا ہوا ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر روز نیا پرفارمہ آ جانا ہے کبھی پی ایم ڈی سی اور کبھی پی ایم سی آ جاتی ہے۔
پی ایم ڈی سی اور پی ایم سی کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے ہم ان باڈیز کو پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایم سی میں سنا ہے اچھے لوگ ہیں لیکن وہ بیٹھ کر ہم سے بات تو کریں، پوری دنیا ریگولیٹر سٹیک ہولڈر کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ریگولیر باڈی میں ہمارا بھی ممبر رکھیں تاکہ شفافیت برقرار رکھیں اب حکومت ضروری بنا رہی ہے کہ ادارہ ہاؤس جاب خود دے ڈاکٹروں کی مختلف اسپیشلیٹیز ہوتی ہیں انہیں مختلف جگہوں پر جا کر کام کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ اب ایسے نہیں چلے گا کہ کبھی پی ایم سی اور کبھی پی ایم ڈی سی والے آ جاتے ہیں،۔
پامی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ایک قسم کا بورڈ ہے جہاں ہر روز پیپر لیک ہو جاتے ہیں پروفیسر جاوید اکرم بتائیں کے ایڈیاک کونسل میں بیٹھ کر الیکشن کیوں نہیں کروائے، پروفیسر جاوید اکرم اپنی تنخواہ بتائیں کتنی ہے اور نجی ہسپتالوں میں مریض کے حوالے سے زیادہ دباؤ ہے ہمیں بتائیں کہ سرکاری ہسپتالوں کی انسپکشن کون کرتا ہے نجی اداروں میں کوالٹی آف ایجوکیشن کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ڈاکٹر باہر اس لئے جاتے ہیں کیونکہ انہیں باہر عزت ملتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ہر ادارے کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن جمہوری رویہ اختیار کریں اور ہم سے مشورہ کریں۔
اگر اب ہم تنگ کیا گیا تو ہم داخلوں سے انکار کر دیں گےدوسرے نمبر پر اپنے اداروں کی تالہ بندی کریں گے، تیسرے نمبر پر سڑکوں پر آئیں گے اور وائے ڈی اے کو بھی ساتھ ملائیں گے.اس موقع پر پامی کے جنرل سیکرٹری محمد ریاض جنجوعہ، فنانس سیکرٹری وحید شیخ، نائب صدر پنجاب ڈاکٹر تنویر اور چوہدری اسرارلحق بھی موجود تھے.