نیویارک : ویٹی کن سٹی نے اعلان کیا ہے کہ کمیونسٹ ملک چین میں پادریوں کی تعیناتی کے حوالے سے تاریخی معاہدے پر اتفاق ہوچکا ہے جہاں اس سے قبل کیتھولک چرچ کے پادری کی تعیناتی حکومت کی جانب سے کی جاتی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ویٹی کن سٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کو ‘بتدریج اور دو طرفہ مفاہمت سے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا جو محتاط مذاکرات اور موصول ہونے والی درخواستوں پر مرحلہ وار جائزے کا ایک طویل عمل ہے۔
معاہدے کی وضاحت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ بشپ کی نامزدگی کے حوالے سے ہے جو چرچ کے لیے ایک اہم سوال ہے اور دوطرفہ سطح پر تعاون کی بہترین صورت حال پید کر لی ہے۔
ویٹی کن سٹی کے ترجمان گریگ برکے نے معاہدے کو سیاسی رنگ دینے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ایک موقع پید ہوا ہے حالانکہ اس مسئلے پر چین کے ساتھ برسوں سے تعلقات بدتر تھے۔
لتھوانیا کے دارالحکومت ویلنس میں موجود گریگ برکے نے کہا کہ معاہدہ ‘سیاسی نہیں ہے بلکہ عقائد کے لحاظ سے روم سے منسلک پادریوں کے لیے اجازت نامہ ہے جو بیک وقت چینی حکام سے بھی تصدیق شدہ ہے۔
خیال رہے کہ یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ویٹی کن سٹی اور بیجنگ کے درمیان سرد تعلقات میں تائیوان کی وجہ سے بہتری آسکتی ہے۔
ویٹی کن سٹی ان 17 ممالک میں شامل ہے جس نے تائیوان کو ایک ملک کی حیثیت سے قبول کر رکھا ہے لیکن چین اس کا مخالف ہے تاہم موجودہ پوپ فرانسس جب 2013 میں منصب پر فائز ہوئے تھے اس کے بعد چین کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں ہانگ کانگ کی کیتھولک پریس نے خبر دی تھی کہ ستمبر میں ہی میں چین اور ویٹی کن سٹی کے درمیان مذاکرات متوقع ہیں اور معاہدے پر دستخط اکتوبر میں ہوں گے۔
چین میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ کیتھولک عیسائی موجود ہیں اور حکومت کے تحت چلنے والے چرچ کے لیے پادری کی تعیناتی بھی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے کی جاتی ہے اور یہ چرچ غیرسرکاری طور پر ویٹی کن سٹی سے منسلک ہیں۔
واضح رہے کہ ویٹی کن سٹی کے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھنے کے 2 سال بعد 1951 سے منقطع ہیں۔
اس سے قبل تعلقات کی بحالی کی کوششوں پر چین کا موقف تھا کہ ویٹی کن ستی پہلے تائیوان کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے اور چین کے مذہبی معاملات پر دخل اندازی نہ دینے کی یقین دہانی کرائے۔