پچھلے دِنوں سابق وزیراعظم عمران خان اپنی سیاست مزید چمکانے اور اِس مقصد کے لیے نوجوانوں خصوصاً طالب علموں کو مزید استعمال کرنے کے لیے ایک عظیم درسگاہ جی سی یو لاہور تشریف لے گئے۔ وہاں ’’تعلیم اور ہنرساتھ ساتھ‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار میں اُنہیں مدعو کیا گیا تھا۔ خان صاحب کو کون سی تعلیم اور کِس ہنر پر بات کرنے کے لیے مدعو کیاگیا تھا؟اِس کا ثبوت وہاں اپنی گفتگو سے اُنہوں نے فراہم کردیا، ابتداء میں چند سیکنڈز اُنہوں نے موضوع پر بات کی، اُس کے بعد موضوع سے وہ ہٹ گئے، یہ ہونا ہی تھا، کیونکہ سوائے گندی سیاست کے کِسی اور موضوع پر بات کرنا اُن کے لیے اُتنا ہی مشکل ہے جتنا مشکل اپنی بات پر قائم رہنا ہے۔ ’’تعلیم اور ہنر ساتھ ساتھ‘‘ کے موضوع پر بھی اُنہوں نے بونگیاں ہی ماریں، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں مگر اپنے کِسی عمل سے یہ بات آج تک وہ ثابت نہیں کرسکے، …تعلیم انسان کو تمیز سکھاتی ہے، تہذیب سکھاتی ہے جبکہ خان صاحب جتنا بدتمیز، بدلحاظ اور بداخلاق شخص اتنا تعلیم یافتہ بہت کم میں نے دیکھا ہے، وزیراعظم بننے کے بعد مختلف اقسام کی بداخلاقیوں کو جتنا اُنہوں نے فروغ دیا اُن پر اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا خود پر ہوتا ہے کہ کیسے شخص کا اتنے برسوں تک ہم ساتھ دیتے رہے، نوجوانوں میں عدم برداشت کو باقاعدہ ایک ’’مشن‘‘ کے طورپر اُنہوں نے فروغ دیا، رشتوں کی تمیز ہی ختم ہوگئی۔ سو وہ جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں تشریف لے گئے اُن کی آمد پر اُن کی خوشی کے لیے طلبہ نے ہرطرح کی ہلڑبازی کرنے میں بڑا فخر محسوس کیا، کچھ طالبعلموں نے کہا’’خان صاحب کے لیے ایک دِن کی کلاسیں کیا پورے سال کی کلاسیں ہم چھوڑ سکتے ہیں‘‘ …چلیں یہ بات قابل برداشت تھی، اُن کے جلسوں میں یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے ’’ خان صاحب کے لیے اگر اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑنا پڑے اُس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ ایک عورت نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا ’’خان صاحب کے لیے کسی کو اگر اپنے خاوند بھی چھوڑنا پڑیں چھوڑ دے، پی ٹی آئی کے پاس مردوں کی کمی نہیں ہے‘‘ …تو جو شخص یہ تربیت اپنے کارکنوں یا نوجوان نسل کی کرتا ہو، یا ایسے الفاظ پر خوش ہوتا ہو، ایک عظیم درس گاہ میں اُسے مدعو کرنا شرمناک بات تھی، کبھی مولانا طارق جمیل اپنی کسی مسجد میں جمعہ کے خطبے کے لیے اُنہیں مدعو کریں وہاں بھی وہ ویسی ہی ’’چولیں‘‘ ماریں گے جیسی سیاسی جلسوں میں وہ مارتے ہیں، وہ اِس احساس سے مکمل طورپرعاری ہیں کون سی بات کہاں اُنہیں کرنی چاہیے کہاں نہیں کرنی چاہیے؟ کون سی بات کس موقع پر اُنہیں کہنی چاہیے کِس موقع پر اُنہیں نہیں کہنی چاہیے؟۔ شکر ہے اُنہیں لوگوں کی غمیوں خوشیوں میں شرکت کا کوئی شعور نہیں ورنہ کسی کی شادی پر جاکر وہ افسوس کررہے ہوتے کسی کے جنازے پر جاکر مبارک دے رہے ہوتے، …اُن سے قبل کچھ اور سیاسی رہنمائوں کو بھی جی سی یومیں مختلف تقریبات میں بلایا جاتا رہا ہے، اِس عظیم درس گاہ کا کچھ حوالوں سے ممکن ہے اُنہوں نے بھی تقدس پامال کیا ہو، مگر جو ماحول خان صاحب کے آنے پربنا اِس سے قبل شاید ہی کبھی بنا ہوگا، تعلیمی اداروں کے تقدس کا ذرا سا خیال اِس بے پروا اور غیر ذمہ دارشخص کے دِل و دماغ میں ہوتا وہ صرف اُسی موضوع پر بات کرتا جس کے لیے اُسے مدعو کیا گیا تھا۔ اگلے روز سرگودھا یونیورسٹی میں بھی موضوع سے ہٹ کر باتیں کرکے درسگاہوں میں سیاسی آلودگی پھیلانے کی اپنی روایت اُس نے برقرار رکھی، پنجاب میں چونکہ اُن کی حکومت ہے سو پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں ’’جوچاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے‘‘…کاش کسی یونیورسٹی میں جاکر وہ سٹوڈنٹس سے اورطرح کی باتیں کرے، وہ اُنہیںبتائیں کامیابی کے لیے ضروری نہیں میرے ہی راستے پر چلا جائے، … اپنی زبان پر قائم رہ کر، سچ بول کر، منافقت سے پرے رہ کر، بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، ایک شخص بس عظیم درسگاہوں میں آتا ہے اور اُس کی خوبصورت روایات کو اپنی سیاست سے آلودہ کرکے چلتا بنتاہے، وہ طلبہ کو اپنے ’’ذاتی جہاد‘‘ پر اُکساتا ہے، یہ ’’جہاد‘‘ صرف کرسی کے دوبارہ حصول کے لیے ہے۔ اِس ملک کی اصلی قوتیں اُسے دوبارہ اقتدار دے کر دیکھ لیں، یہ پھر کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے گا۔ یہ پھرویسی ہی ’’چولیں ‘‘ مارے گاجیسی اپنے پونے چارسالہ اقتدارمیں مارتارہا ہے۔ یہ پھر بزدار کو ہی وزیراعلیٰ بنائے گا پنجاب میں جس نے اُسی نااہلی کا مظاہرہ کیا جس نااہلی کا مظاہرہ مرکز میں اُس نے خود کیا، اصلی قوتیں بھی مرکز میں ’’بزدار‘‘ ہی کو لے آئی تھیں، آگے سے وہ اپنے جیسے کو پنجاب میں لے آیا، سب قوتیں ایک ہی نقطے پر متفق ہیں پاکستان کو برباد کرنا ہے چاہے کسی بھی طریقے سے کریں… کچھ لوگ جی سی یو میں اُس کی آمد پروی سی جی سی یو ڈاکٹر اصغر زیدی صاحب پر تنقید کررہے ہیں، کچھ انتقامی کارروائیاں بھی اُن کے خلاف ہورہی ہیں، یہ کِسی صورت میں درست عمل نہیں، جی سی یو میں خان صاحب جب سیاسی تقریر کرنے ڈائس پر آئے وائس چانسلر صاحب کو اُنہوں نے ’’ڈاکٹر زیدی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، ایک اُستاد کی تکریم کا ذرا اندازہ اِس بدتمیز شخص کو ہوتا وہ اُن کا نام انتہائی ادب احترام سے لیتا، اُنہیں ’’محترم جناب ڈاکٹر اصغر زیدی صاحب ‘‘ کہتا، مگر وہ صرف اپنا ادب کروانا جانتا ہے، جس شخص نے اپنے والد کو کبھی تمیز سے نہ بلایاہو،کسی اور کو تمیز سے بلانے کی توقع اُس سے کیسے کی جاسکتی ہے؟، اُن کا انداز تخاطب ایسے تھا جیسے ڈاکٹر اصغر زیدی صاحب بچپن میں اُن کے ساتھ ’’گلی ڈنڈا‘‘ کھیلتے رہے ہوں، یا اُن کے کوئی ’’اردلی‘‘ وغیرہ ہوں، جواباً ڈاکٹر اصغر زیدی صاحب نے اُنہیں اپنا ’’قائد‘‘ قرار دیا۔ اِس پر اچھی خاصی تنقید ہوئی، موقع پر جو حالات تھے ممکن ہے وہ جذبات کی رو میں بہہ گئے ہوں، یا ہوسکتا ہے ’’قائد‘‘سے اُن کی مراد’’قائد حزب اختلاف‘‘ ہو، سو اِس حوالے سے بھی اُنہیں تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، البتہ اگر وہ بھی موضوع سے ہٹ کر تقریر کرتے، اپنے طلبہ کی طرح ’’عمران خان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے پھر اُن پر تنقید کسی حدتک جائز ہوتی، انتقامی کارروائیاں اُن کے خلاف پھر بھی نہیں بننی تھیں۔ اُنہیں عہدہ اُن کی قابلیت کی بنیاد پر مِلا تھا۔ کسی سیاستدان کو ذاتی حیثیت میں پسند یا ناپسند کرنے کی بنیاد پر نہیں مِلا تھا۔ البتہ اب اُنہیں پوری توجہ اپنے منصب کو حلال کرتے ہوئے جی سی یو کے اصل مقام کو بحال کرنے پر دینی چاہیے، اگلے روز اِس حوالے سے ہمارے محترم بھائی علی احمد ڈھلوں نے بہت تفصیل سے ایک کالم لکھا ہے، جی سی یو کے روزبروز گرتے ہوئے تشخص پر ایک اولڈ راوین کی حیثیت میں اُن کی تشویش بڑی جائز ہے، ڈھلوں صاحب نے تنقید برائے تنقید نہیںکی۔ اُنہوں نے جی سی یو کے روز بروز گرتے ہوئے معیار کو اعدادوشمار سے ثابت کیا ہے۔ رواینزاور اولڈ رواینز کے لیے یہ فکر کا مقام ہے !!