امریکی صدر جو بائیڈن نے ایٹمی اثاثوں کو بے ڈھب کہتے ہوئے پاکستان کو خطرناک جوہری ملک قرار دیا ہے ایسی الزام تراشی پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ وقفے وقفے سے ایسا کہنا معمول ہے مگر حکمران اتحادپی ڈی ایم جس نے گزشتہ چھ ماہ کے اقتدارکے دوران کئی بارنہ صرف امریکی حمایت میں بیانات جاری کیے بلکہ ایک سے زائد بار دعویٰ کیا کہ عمران خان کی بے جا تنقید سے ناراض ہونے والا امریکہ اب تعاون پر آمادہ ہوگیاہے جس سے دونوں ممالک کی شراکت داری میں اضافہ ہوگا لڑاکا طیاروں کی مرمت اور فاضل پُرزوں کی فراہمی شروع کرنے کو پابندیاں ہٹنے جیسا کارنامہ جتایا گیایہ بھی کہا گیا کہ مذکورہ پابندیوں کے خاتمے سے صرف دفاعی نوعیت کے تعاون میں ہی اضافہ نہیں ہو گا بلکہ ناہموارمعیشت کو بھی سنبھالا دینے کی راہ تلاش کی جا سکے گی مگر جو بائیڈن نے پاکستان کے پُرامن جوہری پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے ثابت کر دیا ہے کہ صدرڈیموکریٹک ہو یا ریپبلکن،بدلے حالات کے تناظر میںپاکستان بارے سبھی کا رویہ معاندانہ ہوتا ہے یہ جو مختصر عرصے کے لیے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری دیکھی جاتی ہے اُس کی وجہ بھی خلوص نہیں حالات کا جبر ہوتا ہے سچ یہ ہے کہ ماضی ،حال یا مستقبل میں اُس کی ترجیح بھارت ہے پاکستان نہیں۔
صدر ٹرمپ منہ پھٹ تھے وہ سعودیہ ،ترکی ،پاکستان اور ایران بارے اکثرتضحیک آمیز خیالات کا اظہار کرتے رہتے تھے مگراُنھیں منہ پھٹ سمجھ کر کوئی بھی سنجیدہ نہیں لیتا تھا توقع تھی کہ بائیڈن سوچ سمجھ کر اظہارِ خیال کیا کریں گے لیکن اقتدار میں آکر کئی چھوٹے اور غیر اہم ممالک کی قیادت سے رابطہ کیا اور مشاورت بھی کی لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی رہنے والے ملک پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے مشاورت کرنا تو درکنا ر ٹیلی فون پر رابطہ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا جس سے اتنی وضاحت تو ہو گئی کہ امریکہ کے لیے پاکستان کی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی چھٹی ایسی جوہری طاقت ہے جو حساس ترین خطے میں واقع ہے جس نے نہ صرف روس کی راہ روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ افغان جنگ میں ہزیمت سے دوچار کیا توامریکہ دنیا کی واحد سُپر طاقت بنا مگر افغانستان سے روسی انخلا کے بعد امریکہ نے تمام ترخدمات کے باوجود پاکستان کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے بھارت کو ایشیا کی بالادست قوت بنانے کی کوشش کی نائن الیون واقعات کے بعد پاکستان نے امن مخالف قوتوں کی سرکوبی میں تعاون کیا مگر بھارت نے تعاون کرنے کے بجائے افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کونقصان پہنچانے کی مذموم سازشیں کیں اسلحہ فروخت سے حاصل ہونے والے مالی فوائد اور چین کے گھیرائو کی مُہم میں تعاون کا وعدہ کرنے پر امریکہ نے بھارت کو سینے سے لگارکھاہے ایک اور وجہ یہ ہے کہ ایک تو پاکستان اسلامی ملک ہے تیسری خامی یہ ہے کہ پاکستان کے چین سے گرمجوشی پر مبنی قریبی تعلقات ہیں ٹرمپ اوربائیڈن صدارتی الیکشن مہم کے دوران عوام کے ذہنوں میں بٹھاتے رہے کہ امریکہ کا دشمن نمبرون چین ہے علاوہ ازیں حال ہی میں سامنے آنے والی نیشنل سکیورٹی پالیسی میں بھی کہا گیا ہے کہ چین کی معاشی اور عسکری طاقت کو بڑھنے سے روکناہی اُس کی اولیں ترجیح ہے مگر پاکستان کسی صورت چین کے خلاف ہونے والی کسی سازش میں بطور آلہ کار استعمال ہونے پر آمادہ نہیں نیز سستی توانائی کے حصول کے لیے روس سے رجوع کرنامزیدناگواری کا باعث ہے اسی لیے جوبائیڈن جیسے شخص نے پاکستان پربلاجواز اور سفارتی آداب کے منافی تنقید کی ہے ۔
پاکستان کے خلاف جو بائیڈن کا بیان غلط فہمی یا زبان کی لغزش ہرگز نہیں یہ سوچا سمجھا اور امریکی پالیسی کا عکاس ہے جسے محض چَول کہہ کر نظر انداز کرنا مناسب نہیں کیونکہ ڈیمو کریٹک کانگرس کے اجلاس سے خطاب کے دوران انھوں نے بدلتی ہوئی عالمی سیاسی اور جغرفیائی صورتحال پراپنے نقطہ نظر کا اظہار کیاہے جسے بدگمانی کہہ کر نظر انداز کر نا یا سرے سے
اہمیت نہ دینافہم و دانش کے خلاف ہے بلکہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو مستقبل کے حوالے سے متبادل کے انتخاب پر کام شروع کردینا چاہیے فی الحال پاکستان نے ہر معاملے میں امریکہ پر انحصار کی پالیسی اپنا رکھی ہے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لیے بھی امریکی تعاون سے سینٹر آف ایکسی لینس فارنیو کلیئر سکیورٹی کا اِدارہ اِس کا ثبوت ہے پھر بھی بداعتمادی ہے بلاشبہ اِدارے میں دیگر ملکوں کے کئی ماہرین کی تجاویزکا بھی عمل دخل ہے پھربھی غیرمطمئن ہونے کا ایک ہی مطلب ہے کہ امریکہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف ہے اور حیلے بہانوں سے یہ صلاحیت ختم کر نے کے درپے ہے لہٰذا ذمہ داران کو محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔
اگر بھارت کے جوہری پروگرام پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ واضح طورپربے ڈھب اور غیر محفوظ ہے کئی ایک حادثات کے دوران انسانی اموات ہو چکی ہیں نیزکئی برسوں سے جوہری مواد چوری ہونے اورپھر فر وخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں پیش کرنے جیسے واقعات تسلسل سے جاری ہیں رواں برس ہی مارچ میں جوہری ہتھیارلے جانے والابراہموس میزائل کسی تکنیکی خرابی کی بنا پر پاکستان کے علاقے میاں چنوں گرچکاہے جسے سسٹم کی خرابی قرار دیکر چھپانے کی کوشش کی گئی لیکن اتنی فاش غلطیوں پر بھی امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں اگر اعتراض ہے تو پاکستان کے خالصتاََ پُرامن جوہری پروگرام پر ہے حالانکہ پاکستان کے جوہری اثاثے عالمی قوانین کے مطابق اِتنے محفوظ ہیں کہ کسی قسم کا جوہری مواد چوری کرنا اور کہیں لے جانا قطعی طور پر ناممکن ہے جبکہ بھارتی جوہری پروگرام کے بارے اِس طرح کا دعویٰ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں پھربھی امریکی صدر پاکستان کے جوہری پروگرام کو غیر محفوظ اور غیر منظم قراردیں تو ایک ہی مطلب ہے کہ اسے ہمارے جوہری پروگرام اور پالیسیوں سے ا ختلاف ہے ۔
ریاستوں کے مابین تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں مگر جب سے پاکستان نے چین کے بعد روس سے بھی قریبی تعاون بڑھایاہے امریکہ ناراض ہے کیونکہ اُسے اہداف حاصل کرنے میں ناکامیوں کاخطرہ ہے افغانستان سے انخلا کے ایام میں اُس نے سویلین سے زیادہ عسکری قیادت پر اعتماد کیا محفوظ انخلا میں پاکستان نے ایک بااعتماد سہولت کار کاکردار ادا کیالیکن امریکی بداعتمادی ختم نہیں ہوسکی ممکن ہے امریکی خطے کوانتشار و افراتفری اور لڑائی کا مرکز بنانے کے آرزو مند ہوں اسی لیے کسی سیاسی تصفیے کی راہ ہموار کرنے سے گریز کیا جس سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وہ طالبان مخالف دھڑوں اور بھارت کے ہمنواجنگجوئوں کو ساتھ ملا کر خطے میں حلقہ اثر قائم رکھنا چاہتا تھالیکن حسبِ توقع کامیابی نہیں ہوئی اور امریکیوں کی طرح بھارتی انٹیلی جنس کے کارندوں کوبھی راہ فرار اختیار کرنا پڑی ایسا کیونکر ہوا نہ صرف امریکی بلکہ بھارتی ایجنسیاں حیران و پریشان ہیں اور اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میںپاکستانی اِداروں کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں اور غصے میںجوہری پروگرام کے خلاف عالمی رائے عامہ بنانے کی تگ و دو میں ہیں دونوں ملک اِس ہدف کو مدِ نظر رکھ کر کام کررہے ہیں حالانکہ کئی ایسے نکات ہیں جن پر پاک امریکہ نقطہ نظر ایک ہے جیساکہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکناوغیرہ مگر بھارت کی حمایت میں امریکہ اتنا آگے چلا گیا ہے کہ اُسے پاکستان کا کوئی ایک بھی احسان یاد نہیں رہا یہ کہنا کہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے بائیڈن جسمانی طور پر سست ہونے کے ساتھ ذہنی طورپر بھی چاک وچوبند نہیں رہے اِس میں صداقت نہیںبلکہ روس اور چین سے بڑھتا تعاون اور ایساجوہری پاکستان جو ہرصورت بھارتی بالادستی کو چیلنج کرے اُسے ناپسند ہے مگر بطور ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کو نہ صرف اپنی خارجہ پالیسی طے کرنے کا حق ہے بلکہ اپنی قو می سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی بھی آزادی ہے کسی کو مداخلت کرنے یا کسی نوعیت کی ہدایات دینے کا کوئی حق نہیں ۔
پاکستان نے قیادت نے باہمی سیاسی اختلافات کے باوجود نواز شریف ،عمران خان سمیت سب نے امریکی صدر کے بیان کوسخت ناپسند کیا حکومت نے بھی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو دفترِ خارجہ بلا کر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ احتجاجی مراسلہ تھماکر بیان پر وضاحت طلب کی سخت ردِ عمل آنے پر وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے پاکستانی عزم و صلاحیتوں پر اعتماد کا یقین دلاکر بیان کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی مگربیان واپس نہیں لیا گیا کچھ وزرا نے بیان کو غیر سرکاری اور غیر رسمی تقریب میں ہونے والی بات چیت قرار دیکرسخت ردِ عمل دینے سے اجتناب کیا حالانکہ سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ کس ملک نے شہریوں پر ایٹم بم برسائے ؟ یہ سوال ہم نے تو نہیں کیا البتہ کیوباکے سفیرزینرکارو نے پوچھ لیاامریکہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان میں اُس کے خلاف رائے بہت توانا ہے جس کا سیاسی کامیابیوں میں کردار بڑھتاجارہا ہے یہ رائے عامہ پاک بھارت جنگ کے دوران نہ پہنچنے والے امریکی بحری بیڑے کا قصہ اچھالتی رہتی ہے نوے کی دہائی میں جوہری پروگرام منجمد کرنے یا ختم کرنے کے عوض بھاری مالی مدد کی آفر ز بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اسی لیے صدر کا بیان کچھ زیادہ حیران کن نہیں چاہے علاوہ ازیں سفارتی آداب کے تحت بیان میں موجود خفگی کی چاہیں جتنی پردہ پوشی کرلیں اِس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے کہ دونوں ملکوں کی ترجیحات و اہداف میں نمایاں فرق آچکا ہے اسی لیے جلد یا بدیر دوری بعید از قیاس نہیں امریکہ کومضبوط،خوشحال اور محفوظ پاکستان کے بجائے عدمِ استحکام سے دوچار ایسا ملک پسند ہے جہاں غربت اور بھوک و افلاس کے ڈیرے ہوں اور بھارت کا مقابلہ کرنے یا کشمیر کا مقدمہ جسے پیش کرنے کی کبھی جرأت تک نہ ہوتاکہ جب اور جو چاہیں منوا سکیں اب یہ سوچنا ذمہ داران کا کام ہے کہ انہوں نے قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے یا اغیارکی سازشوں کو کامیاب ہونے دینا ہے۔