حکومت کو گئے ابھی بمشکل چھ ماہ ہوئے ہیں اور میرے قائد انقلاب محترم عمران خان کی جانب سے پھر وہی پرانی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ 2018سے پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں کسی نے خان صاحب سے پوچھا کہ اگر کوئی آرمی چیف آ کر آپ کو کہے کہ آپ فلاں کام کریں اور فلاں نہ کریں تو آپ کیا کریں گے تو خان صاحب نے اپنے مخصوص سٹائل میں کہا کہ آپ مجھ سے اس بات کی توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ میں کسی آرمی چیف سے ڈکٹیشن لوں گا اول تو کسی کو مجھے ڈکٹیٹ کرنے کی جرأت نہیں ہو گی اور اگر ایسا ہوا تو میں اس آرمی چیف کو ڈسمس کر دوں گا ۔حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف اور خود خان صاحب کی جانب سے مسلسل اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور بار بار اس بات کا یقین دلایا گیا کہ جو بھی پالیسی یا حکومتی امور ہیں وہ میری مرضی سے چل رہے ہیں اور اب حکومت جانے کے چھ ماہ بعد خان صاحب کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ حکومت تو میری تھی اور ذمہ داری بھی میری تھی لیکن اختیارات کسی اور کے پاس تھے ۔ اپنے دور حکومت کی غلطیوں کا ملبہ کسی اور پر ڈالنا تھا تو اس میں حزب اختلاف کو تو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے تھے لہٰذا اس کا سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا ۔ اس بیان سے چونکہ اچھی خاصی سبکی ہو سکتی تھی اس لئے ساتھ ہی کہہ دیا کہ اب اگر وہ حکومت میں آئے تو با اختیار ہو کر آئیں گے ۔ ہمیں تو خان صاحب کی ہر بات پر یقین ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جس بندے کی حالت اب بھی یہ ہو کہ جلسوں میں تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھڑکیں مار کر ببر شیر بنتے ہیں لیکن بند کمروں میں اسی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھیگی بلی بن کر ترلے منتوں کے ساتھ ان کی ہر شرط ماننے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی بات نہیں بن رہی تو کیا کریں دل تو خان صاحب کے فین کلب کا رکن ہے لیکن دماغ جب خان صاحب کے انقلابی بیانات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے تو ہر بار ایک ہی جواب آتا ہے کہ
تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
شروع دن سے ہی خان صاحب کی سیاست اپنی کارکردگی پر نہیں بلکہ دوسروں پر جائز اور ناجائز تنقید سے چل رہی ہے بلکہ کچھ لوگوں کی رائے میں دوڑ رہی ہے لیکن اس میں بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی پر بھی الزام لگانا کوئی مشکل کام نہیں لیکن اس الزام کو باقاعدہ ایک بیانیہ کی شکل دے کر عوام کے سامنے پیش کرنا اس فن میں دور دور تک خان صاحب بلکہ اب تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کی پوری قیادت کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔آپ ایک بات پر غور کریں کہ تنقید ہر کوئی کرتا ہے اور بسا اوقات اس میں زیادتی بھی ہو جاتی ہے لیکن خدا کی پناہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی اگر پوسٹیں دیکھیں تو ان کی ہر پوسٹ میں د و چار امریش پوری ضرور بیٹھے ہوتے ہیں اور بالی ووڈ کی فلموں میں جو زبان امریش پوری بولا کرتے تھے جب تک اس زبان میں بات نہ ہو تو پوسٹ مکمل نہیں ہوتی ۔خود عمران خان جلسوں میں تقریر کے دوران جس طرح اپنے سیاسی مخالفین کو مخاطب کرتے ہیں اس سے کون واقف نہیں ۔اب مسئلہ لانگ مارچ کا تھا اور خان صاحب کو قوی امید تھی کہ جس طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کے لتے لے رہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی تو اس کے بعد مقتدر حلقے دبائو میں آ جائیں گے اور خان صاحب اپنی من مانی شرائط پر بات کر سکیں گے لیکن اب تک کی جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق بات چیت خان صاحب کی خواہشات کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہی اور 25مئی کے ناکام تجربہ کے بعد ایک اورناکام لانگ مارچ خان صاحب کی سیاست کے لئے واٹر لو کا میدان ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا میڈیا پر ان کے حمایتی اب یہ کمال کا نقطہ بیان کر رہے ہیں کہ خان صاحب خود لانگ مارچ کی کال سے خوفزدہ ہیں کیونکہ اگر عوام ایک مرتبہ سڑکوں پر آ گئے تو پھر انھیں کنٹرول کرنا خود خان صاحب کے بس میں نہیں رہے گا۔
افسانوی باتیں جتنی چاہے کر لیں لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ 2014کے 126دن کے دھرنے بُری طرح ناکام ہو کر ختم کرنا پڑے اور اس سے بھی زیادہ ناکامی 25مئی کو ہوئی ۔ اس کے بعد خان صاحب نے کوئی چھ سات مرتبہ مختلف ایشوز پر ملک گیر احتجاج کی کال دی لیکن عوامی سطح پر کوئی کال اس حد تک بھی پذیرائی حاصل نہیں کر سکی کہ خان صاحب کے کہنے پر ہونے والے احتجاج کو دوسرے دن کے اخبارات میں صفحہ اول پر جگہ ہی مل سکے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ خان صاحب کی عوام میں مقبولیت نہیں ہے یقینا وہ ایک مقبول عوامی رہنما ہیں لیکن جلسے کرنا ، احتجاج کرنا اور ہڑتال کرنا گو یہ سب سیاست کا حصہ ہیں لیکن ان کی اپنی الگ الگ حقیقتیں ہیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی ایک وقت میں 80کی دہائی میں ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تھی اور اس نے جنرل ضیاء کے دور میں گیارہ سال تک جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کی۔ جیل ساٹھ ہزار کوڑے پھانسیاں لیکن کاروباری طبقہ سے دوری کی وجہ سے یہ اس وقت بھی ملک گیر سطح پر کامیاب ہڑتال نہیں کرا سکتی تھی۔ کراچی میںنواز لیگ کی مقبولیت پنجاب کی نسبت کافی کم تھی لیکن کاروباری برادری سے قربت کی وجہ سے احتجاج نہیں لیکن کراچی میں ہڑتال ضرور کرا سکتی تھی ۔اسی طرح خان صاحب جلسے کر سکتے ہیں کہ جن کے متعلق ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ بھی کوئی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو رہے لیکن جہاں تک احتجاج اور وہ بھی جس میں لاٹھی گولی کا خطرہ ہو ہمارے خیال میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی تربیت اور ان کا مزاج اس سے میل نہیں کھاتا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہاہیوں تک سیاسی تحریکوں کا ایک دور تھا جس میں مزدور یونین اور طلبہ یونین مرکزی کردار ادا کرتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ اب مزدور یونینز تو ویسے ہی ختم ہو چکی ہیں اور طلبہ سیاست میں نظریات کا عمل دخل عرصہ ہوا ختم ہو چکا ہے ۔خان صاحب اور تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ان حقائق کا علم ہے اسی لئے وہ مقتدر حلقوں کی آشیر باد کے بغیر لانگ مارچ ایساقدم نہیں اٹھانا چاہتے۔ اب ملکی مفاد کی خاطر لانگ مارچ کے التوا پر خان صاحب کے سینے پر حب الوطنی کے تمغے سجانے کی کوشش کی جائے گی ۔ خان صاحب نے کہا ہے کہ لانگ مارچ اکتوبر کے مہینہ میں ہی ہو گا اور اکتوبر ختم ہونے میں اب دس دن رہ گئے ہیں اور لانگ مارچ کوئی آن آف بٹن نہیں کہ جس کے آن کرنے سے بلب روشن اور آف کرنے سے بند ہو جائے گا بلکہ اس کے لئے ٹرانسپورٹ سے لے کر قیام طعام تک بہت کچھ کرنا پڑے گا لیکن اگر لانگ مارچ نہیں ہوتا تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خان صاحب چپ بیٹھ جائیں گے ۔ انھوں نے جس طرح آرمی چیف کی تقرری کو زندگی موت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے وہ کچھ تو کریں گے لیکن اس بار ملبہ کسی نہ کسی پر تو گرنا ہی ہے، کس پر گرتا ہے اس کے لئے چند دن انتظار کرنا پڑے گا ۔