بعض ملکوں میں سیاست دانوں سے مایوس ہوکر ووٹروں نے علامتی طور پر جانوروں کو اپنا لیڈر منتخب کرلیا۔ ریڈرز ڈائجسٹ کی ایک مزاحیہ رپورٹ کے مطابق اگر کبھی کبھی منتخب انسانی نمائندے جانوروں کی طرح حرکتیں کرسکتے ہیں توپھر چار پائوں والے اصل جانور اچھے لیڈر کیوں نہیں بن سکتے؟ شاید اسی لیے مختلف اوقات میں درج ذیل جانوروں کو عوام نے اپنا لیڈر بنایا۔ میکسیکو کے دو طالب علموں نے 2013ء میں اپنی سیاسی قیادت سے مایوس ہوکر سفید اور کالے موٹے بِلے مورِس کو طنزیہ طور پر اپنے شہر زلاپا کا میئر نامزد کیا۔ امیدوار بِلے کو فیس بک پر ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے لائیک کیا۔ یہ علیحدہ بات کہ بِلے کے نام کو بیلٹ پیپر میں شامل نہیں کیا گیا تھا تب بھی الیکشن والے دن میئر کے لیے نامزد بِلے کو فیس بک پر سات ہزار پانچ سو ووٹ ملے۔ اُسے ووٹ دینے والوں کا خیال تھا کہ مورِس بِلا ایک بہترین سیاست دان ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سارا دن سوتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ امریکہ کی ریاست الاسکا کے قصبے تالکیتنا کے نوسو رہائشیوں نے انسان سیاست دانوں سے مایوس ہوکر بِلے سٹبس کو اپنا لیڈر منتخب کرلیا۔ وہ بِلا تقریباً 16 برس تک قصبہ تالکیتنا کا اعزازی میئر رہا۔ وہاں کے رہائشیوں کے مطابق بِلا سٹبس قصبے کی تاریخ کا بہترین میئر ثابت ہوا کیونکہ وہ کبھی کسی قسم کی مالی بددیانتی اور مالی مفاد میں ملوث نہیں رہا۔ برازیل کے شہر سائوپائولو کے 1959ء کے سٹی کونسل کے انتخابات میں ایک گینڈے کو امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا۔ گینڈے کا نام کوڑا کرکٹ رکھا گیا۔ گینڈے کوڑا کرکٹ نے سٹی کونسل کے پانچ سو امیدواروں کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔ شہر سائوپائولو کے نوجوان طالب علموں نے گینڈے کوڑا کرکٹ کا نام بیلٹ پیپر میں طنزیہ طور پر شامل کیا تھا لیکن پانچ سالہ گینڈہ وہاں کے سیاست دانوں کے خلاف مایوسی کی ایک علامت بن گیا۔ اسی گینڈے کوڑا کرکٹ سے متاثر ہوکر تقریباً دس برس بعد کینیڈا میں ایک سیاسی تحریک گینڈہ پارٹی آف
کینیڈہ کے نام سے شروع کی گئی۔ اس پارٹی کے حمایتیوں کا خیال تھا کہ گینڈے مکمل سیاست دان بن سکتے ہیں کیونکہ وہ موٹی کھال والے ہوتے ہیں، سست رفتاری سے کام کرتے ہیں اور عقلمند نہیں ہوتے البتہ خطرے میں سب کو چھوڑ کر بڑی تیزی سے بھاگ جاتے ہیں۔ امریکی ریاست کینٹکی کے علاقے ریبٹ ہیش کے رہائشیوں کے سیاست دان اگر جانور ہوں تو وہ برا نہیں مانتے کیونکہ کتیا لوسی لو اُن کی تیسری جانور میئر تھی۔ وہاں کے شہریوں میں جانوروں کو اپنا رہنما منتخب کرنے کی روایت اس لیے پڑی کہ وہ انسانی سیاست دانوں سے مایوس ہوگئے تھے۔ اسی لیے 2008ء میں کتیا لوسی لو نے اپنے مدمقابل کتے، بلی، برفانی گلہری اور ایک انسان کو شکست دے کر انتخاب جیت لیا۔ اس کی سرکاری ذمہ داریاں بہت سادہ تھیں۔ یعنی اُسے صرف فنڈ جمع کرنے میں مدد کرنا اور مہمانوں کو خوش آمدید کہنا ہوتا تھا۔ میئر کتیا لوسی لو کی طرف سے فنڈ جمع کرنے کی ایک نمایاں مثال اُس وقت سامنے آئی جب ریڈرز ڈائجسٹ کی ایک تحریک ’’امریکہ ہم تمہیں سنتے ہیں‘‘ میں کتیا لوسی لو کو ایک ہزار ڈالر کا چیک ملا۔ لوگوں کے خیال میں کتیا لوسی لو اپنے تمام فرائض بہت احسن طریقے سے نبھاتی تھی اور کسی قسم کی مالی کرپشن میں بھی ملوث نہیں ہوئی۔ بہت سوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کھیل تماشوں سے نکل کر کامیاب سیاست دان بن جائیں لیکن کلے ہنری نامی بکرے نے انٹرٹینمنٹ کے پروگراموں کے شرابی بکرے کی حیثیت کو چھوڑ کر کامیاب میئر بکرے کی حیثیت اپنا لی۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے لیجی ٹاس کے رہائشیوں نے دوسرے علاقے ہیوسٹن سے آکر اُن کا میئر منتخب ہونے والے کاروباری شخص کے بعد 1980ء میں بکرے کلے ہنری کو اپنا نیا میئر منتخب کرلیا۔ بکرے کلے ہنری کے مالک نے اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اُس نے سوچا کہ اگر دوسرے علاقے ہیوسٹن سے آکر کوئی کاروباری اجنبی اُن کے علاقے لیجی ٹاس کا میئر منتخب ہوسکتا ہے تو اُس کا بکرا جو مقامی ہے اُن کا میئر منتخب کیوں نہیں ہوسکتا؟ اِس وقت بکرے کلے ہنری کی نسل علاقے لیجی ٹاس کے اعزازی میئر کے طور پر موجود ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ وہاں کے لوگوں نے دوسرے علاقوں سے آکر اُن کی سیاست پر قبضہ کرنے والے انسانوں کی جگہ اپنے مقامی جانوروں کو اپنا لیڈر بنانے کو ترجیح دی۔ امریکہ میں 1968ء کے صدارتی انتخابات کے لیے نوجوانوں کی ایک تنظیم یوتھ انٹرنیشنل پارٹی نے اپنا صدارتی امیدوار پِگ پیگاسس کو نامزد کیا۔ انہوں نے یہ علامتی نامزدگی ویتنام کی جنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر کی۔ جونہی یوتھ انٹرنیشنل پارٹی نے اپنی ملک گیر ریلی میں پیگاسس کو صدارتی امیدوار کے طور پر متعارف کرایا تو پولیس فوراً حرکت میں آگئی۔ پولیس جانور پیگاسس کو اٹھاکر لے گئی اور یوتھ انٹرنیشنل پارٹی کے نوجوانوں کو منتشر کردیا۔ یوتھ انٹرنیشنل پارٹی کی طرف سے جانور پیگاسس کی صدارتی امیدوار کے طور پر علامتی نامزدگی بھی انسانی سیاست دانوں کے اقدامات کو مسترد کرنے کے حوالے سے تھی۔ قدیم تاریخ دان سوٹونیس کے مطابق پرانے ملک روم کے پاگل بادشاہ کیلی گولا کا گھوڑا انسائی ٹیٹس اُس وقت کی رومن کونسل میں اہم عہدے پر فائز تھا۔ اُس تاریخ دان کے مطابق وہ سیاسی گھوڑا بادشاہ کا خاص ایڈوائزر تھا۔ وہ سیاسی گھوڑا سنگ مرمر کے محل میں رہتا تھا۔ اُسے گولڈ کے کشتے سے تیار کردہ جَو کی خوراک دی جاتی او ر تازے انگوروں کا رس پلایا جاتا۔ تاہم ماڈرن تاریخ دانوں کے مطابق سیاسی گھوڑا انسائی ٹیٹس قدیم تاریخ دان سوٹونیس کی سیاست دانوں کے لیے ایک طنزیہ تصوراتی ہسٹری ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اُس وقت بھی لوگ انسانی سیاست دانوں سے مایوس ہوکر جانوروں کو اپنا لیڈر بنانے کے بارے میں سوچتے تھے۔ دنیا کے مشہور جانور سیاست دانوں کی مختصر فہرست یہاں ختم ہوتی ہے۔ البتہ انسان سیاست دانوں کی فہرست شاید کبھی ختم نہ ہو۔ پاکستان کے ووٹر اپنے سیاست دانوں سے شاید کبھی مایوس نہیں ہوئے اسی لیے باربار وہی پرانے چہرے یا انہی کی اگلی نسلیں منتخب ہوتی ہیں۔
مایوس ووٹروں نے جانوروں کو اپنا لیڈر چُن لیا
10:14 AM, 22 Oct, 2022