ہماری سیاسی قیادت کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو ایک چیز سب کے اندر مشترک ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی سوچ اور ہوتی ہے مگر جب اقتدار کے چشموں سے بہرہ مند ہوتے ہیں تو ان بہتی ہوئی لہروں اور باغوں کے درمیان ان کی فکر و دانش بدل جاتی ہے۔ قومی اداروں کے سیاست میں کردار کے موضوع پر ان سب کا رویہ ایک جیسا ہے یعنی حکومت میں ہوں تو اور جبکہ اپوزیشن میں ہوں تو اور۔ بلکہ اداروں کے ساتھ اچھے ماحول میں یہ تخت نشین ہوتے ہیں اور جب اس ماحول میں خنکی آنے لگتی ہے تو ان کے اقتدار پر بھی خزاں رسیدگی آجاتی ہے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور آخر میں تحریک انصاف ان سب کا ٹریک ریکارڈ یہی بتاتا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے سے لے کر مجھے کیوں نکالا سے ہوتے ہوئے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے تک کا سارا سفر عوام کے سامنے ہے۔ عام سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی یہ تسلیم کرنے لگا ہے کہ سیاستدان دیگر پلیٹ فارم استعمال کرنے کے بجائے اگر آپس میں ڈائیلاگ کریں اور قومی امور میں غیر متنازع رویہ سے پرہیز کریں اور بنیادی اصولوں پر concensus رکھیں تو اس میں ان کے بہت سے مسائل کی مشکل کشائی ہو سکتی ہے مگر یہ لوگ وقتی فائدے اور اقتدار کے حصول کی خاطر ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
آپ حالیہ سیاسی ڈیڈ لاک کی مثال لے لیں۔ وزیراعظم بننے سے لے کر ہٹائے جانے تک عمران خان کا مؤقف یہی رہا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کر سکتے ہیں مگر اپنے سیاسی مخالفین یعنی اپوزیشن سے نہیں۔ مذاکرات تو دور کی بات ہے وہ اپوزیشن کے کسی لیڈر سے ملنے یا ہاتھ ملانے کے بھی روا دار نہیں تھے۔ حالانکہ حکومت اور اپوزیشن کا ملک کے مفاد کی خاطر آپس میں ورکنگ ریلیشن ناگزیر ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی سیٹ اپ میں کچھ عرصے سے یہ Trend ہے کہ مذاکرات کے لیے جمہوری یا اعلانیہ راستہ نہیں اپنایا جاتا بلکہ اس کے بجائے اس کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس کو بیک چینل ڈپلومیسی کا نام دے دیا جاتا ہے حالانکہ یہ اصطلاح دو ریاستوں کے درمیان مذاکرات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ عوام کے ووٹ سے عوام کے نام پر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے جب آپس میں سودے بازی کرتے ہیں تو اُسے عوام سے خفیہ رکھا جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان صاحب نے تصدیق کی ہے کہ ان کے اداروں کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے انہیں مذاکرات کی پیش کش کی گئی تھی مگر تحریک انصاف کہتی ہے کہ حکومت الیکشن کا اعلان کر دے تو پھر ہم
مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ جب الیکشن کا اعلان ہو جائے تو پھر مذاکرات کس بات پر کرنے ہیں۔ عمران خان پے در پے جلسوں سے حکومت کو بیک فٹ پر دھکیل چکے ہیں۔ جولائی اور اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں واضح کامیابی کے بعد انہوں نے اپنی مذاکراتی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ لیکن اب بھی ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ دوسری طرف سے ناراضی میں کمی نہیں آ رہی۔
تحریک انصاف کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ ہی بیک چینل رابطے شروع ہو گئے تھے۔ اس میں سب سے زیادہ کردار صدر پاکستان عارف علوی کا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کچھ دوست ممالک نے بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تحریک انصاف کے رابطوں اور بات چیت کے ادوار کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے ایک موقع پر ایوان صدر میں اعلیٰ ترین سطح پر دو شخصیات میں براہ راست ون ۔ آن۔ ون ملاقات بھی ہو چکی ہے مگر برف پوری طرح سے پگھلنے نہیں پائی البتہ دونوں ضمنی انتخابات کے بعد عوامی امنگوں کی ترجمانی اور عمران خان کی ذاتی مقبولیت جیسی وجوہات نے ایک دفعہ پھر طرفین کو سنجیدہ بات چیت پر مائل کیا ہے۔
عمران خان اپنی خواہش کے باوجود لانگ مارچ کی تاریخ نہیں دے رہے اور نہ ہی لانگ مارچ کو ملتوی کرنے کا اعلان کر رہے ہیں جس سے سیاسی طور پر ان کی 10 لاکھ لوگوں کا مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت پر سوال اٹھ رہے ہیں لیکن وہ تاریخ اس لیے نہیں دے رہے کہ انہیں آگے سے تاریخ نہیں مل رہی۔ یاد رہے کہ تاریخیں 2 ہیں ایک لانگ مارچ کی اور ایک نئے انتخابات کی۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ کی تاریخ طے ہونے سے پہلے انہیں انتخابات کی تاریخ مل جائے اس معاملے میں انہیں خلاف معمول کافی صبر سے کام لے رکھا ہے۔ دوسرے کیمپ پر نظر دوڑائیں تو وہاں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی چل رہی ہے۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ اگر شہباز شریف بطور وزیراعظم نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان کر دیتے اپوزیشن کی یلغار میں خود بخود کمی آجانی تھی۔ وہ جتنا تاخیر کر رہے ہیں ان کے سیاسی مخالف اتنی ہی زیادہ اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہو سکتا ہے موجودہ Status Quo ایک بار پھر تبدیل ہو جائے اور ایسے نتائج نکل آئیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی پوزیشن میں آجائیں۔ مریم نواز کی پاکستان سے لندن روانگی اور وہاں جا کر خاموشی کیا ظاہر کر رہی ہے اس وقت تو لگتا تھا کہ وہ ایک فلائٹ سے جائیں گی اور اگلی فلائٹ سے میاں نواز شریف کے ہمراہ واپس آجائیں گی مگر ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد انہوں نے چپ سادھ لی ہے اور میاں صاحب کی واپسی ایک بار پھر چونکہ چنانچہ اور اگر مگر کا شکار نظر آتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پردوں کے پیچھے کچھ ایسا ضرور ہوتا نظر آتا ہے جو ن لیگ کے لیے ناگوار ہے۔
میاں نواقز شریف کے بھیجے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے آتے ہی ڈالر کی بے توقیری شروع ہو گئی تھی جو 242 سے دیکھتے ہی دیکھتے 214 پر آگیا مگر ڈار صاحب کہتے تھے کہ ہم ڈالر کو 200 سے نیچے لائیں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں پتہ ہے کہ بنکوں نے 56 ارب روپے ڈالر ریٹ کی آڑ میں کمائے ہیں مگر پھر اچانک ڈالر نے دوبارہ مہنگا ہونا شروع کر دیا اور اب اس وقت 226 روپے تک پہنچ چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے اب اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ ڈالر کو کنٹرول کرنا سٹیٹ بینک کا کام ہے۔
ن لیگ کو دوہری مار یہ پڑی ہے کہ مہنگائی نہ کنٹرول کر سکنے بلکہ مہنگائی کی رفتار میں اضافہ کرنے کی وجہ سے عوام ان سے ناراض ہو گئے ہیں جس کا اظہار ضمنی الیکشن میں سامنے آچکا ہے ایک طرف ان کی عوام پر گرفت کمزور ہوئی ہے دوسری طرف ان کی سیاسی ساکھ اور bargaining پوزیشن کا لیول نیچے آگیا ہے کیونکہ ان دونوں معاشی بیماریوں کا شوگر اور بلڈ پریشر کی طرح آس میں گہرا تعلق ہے۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت پر اعتبار اور عزت کے خاتمے میں ناکامی جیسے ایشوز آئندہ بھی اسی طرح ملک کے سیاسی و معاشی ڈھانچے کو ڈستے رہیں گے سیاسی پارٹیوں کو چاہیے تھا کہ ادھر ادھر مذاکرات کرنے کی خواہش میں اپنی باری کا انتظا ر کرنے یا قطار میں کھڑا ہونے کے بجائے اگر خود سے آپس میں مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے تو ہماری سیاسی ڈکشنری میں selected اور rejected جیسی اصطلاحیں متروک ہو جاتیں۔
پاکستان کے فیملی لاز میں جس طرح عقد ثانی کی قانون اور شرعی گنجائش کافی وافر طریقے سے موجود ہے اور یہ ہماری قومی سیاست میں بھی مساوی اہمیت کی حامل ہے لہٰذا مذاکرات کی میز پر یہ سوال ضرور کھڑا ہو گا کہ اس سارے کھیل میں کوئی revolving door ہے جہاں کھلاڑی گھومنے والے دروازے کے ایک طرف سے باہر نکلے اور ساتھ ہی دوسری طرف سے پھر اندر آجائے۔ اس کا تازہ ترین حالات میں تو کوئی جواب واضح نہیں ہے البتہ BBC ایک عرصے تک میاں نواز شریف کو revolving door وزیراعظم کہتی رہی ہے کہ انہیں ایک دروازے سے نکالا جاتا ہے مگر وہ دوسرے دروازے سے پھر آجاتے ہیں اور یہ ون ٹو تھری جیسی سیریز ہے ۔ ہمارے ہاں اداروں میں سربراہوں کی تبدیلی سے فیصلے رجوع ہو جاتے ہیں۔ سیاست کو ویسے بھی ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے۔