ناکامیوں کو کارنامہ ثابت کرنا ممکن نہ رہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ بادشاہ خراب نہیں، بادشاہ کے مشیر خراب ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ ایسے مشیر رکھے کس نے؟ اگر کوئی صحیح مشیر نہیں رکھ سکتا تو پھر ہوش مند بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت یا پھر ان سے اوپر والوں کے فیصلے سب کو اپنے اپنے عمل کا حساب پیش کرنا چاہئے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے حوالے سے جو مضحکہ خیز صورتحال بنی اس سے اپوزیشن جماعتوں کے اس الزام کو تقویت ملی ہے کہ اس حکومت میں سرے سے کوئی مناسب اور بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ اب تک ملک کے اندر اور باہر یہ افواہ سب سے زیادہ گونج رہی ہے کہ ایک ڈی جی کے آنے ایک ڈی جانے کے بارے میں فیصلہ جادو کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ذرا تصور کریں ہمارے پڑوسی ممالک اور دنیا اس تماشے سے کس قدر لطف اندوز ہوئی ہوگی۔ کچھ دیر کے لئے آئینی غیر آئینی، قانونی غیر قانونی کی بحث کو ایک طرف کرکے دیکھیں تو یہ واضح ہو جائے کہ مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں کی اصل شان ہی ان کا رعب دبدبہ ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں اپنی ساکھ کو کارکردگی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور غیر متعلقہ کاموں میں عدم مداخلت کے ذریعے برقرار رکھنا سو فیصد اداروں کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ہماری 74 سالہ تاریخ اگرچہ کسی نارمل معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ پھر بھی چند چیزوں پر پردے پڑے ہوئے تھے۔جیسے مسلح افواج کی جانب سے اپنے ہی شعبے کے بارے میں کوئی فیصلہ یا اعلان ہو جائے تو پھر سرکاری کاغذی کارروائی مکمل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کرنے سے متعلق آرمی چیف کے حکم کو جس طرح لٹکایا گیا ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مثال تو ایسی لے پالک اور لاڈلی حکومت کی بھی نہیں ملتی جس کے سارے کام اس کے لانے والے خود کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں، عدالتوں اور میڈیا کی ٹھکائی سے لے کر ایک ایک کام اوپر والوں نے سنبھال رکھا ہے۔ خارجہ محاذ پر پسپائیاں ہوں، داخلی ناکامیاں یا بدترین مہنگائی بھی اپنا سینہ آگے کردیتے ہیں۔ بزدار جیسوں کو بچانے اور چلانے کے لئے پی ٹی آئی ہی میں شامل اپنی پرانی حلیف شخصیات کو رگڑا لگا دیا جاتا ہے۔ اس حکومت کو بنی بنائی پالیسیاں ہی نہیں وزرا کی ریڈی میڈ لسٹ بھی مل جاتی ہے۔ مشیر، ترجمان، سفیر، کارپوریشنوں کے سربراہ، اہم سول افسروں کے ساتھ کھیل کے میدانوں تک میں نامزدگیاں کہیں اورسے ہو رہی ہیں۔ حکومت اور اسے چلانے والوں میں اعتماد اس سطح پر ہے کہ وہ خود چھپاتے ہیں نہ ہی وزرا کہ کاروبار مملکت کون اور کیسے چلا رہا ہے۔ اس ہائبرڈ حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یوں تو پیج ایک ہی ہے مگر چار، پانچ کرداروں کا مستقبل اور مفادات بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سو ایک دوسرے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی ہے۔ 2014 کے دھرنے اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات میں تو مخالف سیاسی جماعتوں کا سامنا تھا اس لئے کسی کارروائی پر حیرانی نہیں ہوتی۔ عوام مگر اس وقت ششدر رہ گئے جب لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے پہلے لگنے والے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو صرف آٹھ ماہ بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ظاہر ہے ایسا وزیر اعظم عمران خان کی فرمائش پر کیا گیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جو کام وہ کرانا چاہتے ہیں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اس کے لئے موزوں نہیں۔جادو یا ضعیف
الاعتقادی بہت زیادہ الجھن میں ڈال دینے والی چیزیں ہیں۔ اسے صرف دین میں ہی نہیں معاشرے میں عمومی طور پر بھی ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی گھبراہٹ کے سبب یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ شاید ایک پیج پر پہلے والی محبت نہیں رہی۔ نئے ڈی جی کے نام کا اعلان کرنے کے بعد فوج کے لئے بحیثیت ادارہ یو ٹرن لینا مشکل ہے۔سو وزیر اعظم کو فیس سیونگ فراہم کرنے کے لئے (بعض ذرائع کے مطابق ایسا پیشگی مشاورت کے بعد کیا گیا تھا) تین جرنیلوں کے نام میں سمری بھجوائی گئی۔ سارا دن میڈیا پر اسکا ڈھنڈورا پیٹا گیا رات کو پتہ چلا ایسی کوئی سمری تھی نہیں۔ اب پھر کہا جارہا ہے کہ سمری موجود بھی ہے اور وصول بھی ہوگئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زائچہ درست نہ آنے پر نوٹیفکیشن کا اجرا وعدہ کرنے کے باوجود روک دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کسی صورت حکومت چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ویسے بھی انہیں لانے سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آپ کم ازکم دس سال حکومت کریں گے اور اداروں میں موجود کون سے افراد ترقی پاکر ان کے اقتدار کو قائم و دائم رکھیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے کسی آئینی اختیار کے لئے نہیں بلکہ حکومت جانے کے خوف سے اپنے سرپرستوں کے لئے مشکلات بڑھا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈرا ہوا آدمی اس حوالے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی خطرہ محسوس کرئے تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان کو پختہ یقین ہے کہ جیسے ہی اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوئی انکی حکومت گر جائے گی اور پارٹی بھی بکھر جائے گی۔ پتہ نہیں عمران خان کو اس وسوسے میں کس نے ڈال دیا۔ ایسا کوئی اشارہ تک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت ان کی حمایت سے پیچھے ہٹتی نظر آرہی ہو۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن پر سبکی کی حدتک سنگین معاملے پر بھی اسٹیبلشمنٹ نے زبردست صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وہ اگر اپنے محبوب وزیر اعظم کو تھوڑا سا سبق سکھانے کی بھی نیت رکھتے تو ق لیگ نے ایک سیکنڈ میں آنکھیں پھیر لینی تھیں۔ ایم کیو ایم گریبان سے پکڑ لیتی، باپ والے سر پر چڑھ جاتے، اپنی ہی پارٹی کے وزرا لتے لینا شروع کردیتے۔ تو کیا اب بھی سب کچھ محفوظ ہے۔اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کی روحانی بوکھلاہٹ نے سرپرستوں کے لئے بھی کچھ مشکلات پیدا کردی ہیں۔ پاک فوج میں بطور ادارہ یہ سوچا جارہا ہوگا کہ انکے چیف کے حکم پر فوری عمل نہ ہونے سے کمزوری کا تاثر پیدا ہوا ہے۔ اس لئے اب عملًا حکومت سے مناسب فاصلہ اختیار کرکے کسی حد تک غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ ایک اور اہم پہلو ہے کہ جب اس حکومت کے کرتا دھرتا جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کے وقت ہی یہ دعوے کرتے پائے جائیں کہ اگلا آرمی چیف فلاں افسر ہوگا اور وہ بھی تین سال کی توسیع لے کر چھ برس تک اپنے عہدے پر براجمان رہے تو ایسے میں ادارے کے دیگر اعلیٰ افسر کیا سوچ رہے ہونگے اسکے بارے ہرگز دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ سو فی الحال اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ اگر الٹی گنتی شروع نہیں ہوئی تو اب پہلے والا ماحول بھی باقی نہیں رہا،پاکستان میں سیاست اور حکومتوں کے بارے میں یقین سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ موجودہ سیٹ اپ واقعی بوجھ بن چکا ہے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ جو تبدیلی بھی آئے گی وہ اسٹیبلشمنٹ کی لیڈر شپ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے پہلے ہی آئے گی۔اس دوران ایک بہت اہم پیش رفت مریم نواز کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کردہ درخواست کے حوالے سامنے آئی ہے۔ اپنے والد نواز شریف اور خود کو ہونے والی سزا کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل سے برطرف ہونے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان حلفی کا معاملہ سادہ ہرگز نہیں۔ شوکت عزیز کو عدلیہ سے نکال کر سپریم کورٹ میں ان کی اپیل ان کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد بھی لٹکی ہوئی ہے۔یہ کہا جارہا ہے شاید ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس بارے میں پھر کوئی ایسا ہی فیصلہ دینے سے گریز کرنا چاہتی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی کو ئی عام شخصیت نہیں۔ ججوں اور وکلا برادری میں ان کے لئے بہت زیادہ احترام پایا جاتا ہے۔وہ اپنی ایمانداری اور بہادری کے سبب مقبول بھی بہت ہیں۔مریم نواز کی درخواست پر یہ کیس آگے چلا تو اس کے حیران کن نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایک اور بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ اپوزیشن کی جماعتیں قدرے پراعتماد نظر آرہی ہیں شاید ان سے رابطے کیے گئے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی ایسے رابطے ہوئے مگر نتیجہ صفر نکلا۔ اسی لئے مولانا فضل الرحمن باربار لانگ مارچ پر روز دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو جلدی نہیں۔بہر حال تازہ ترین واقعات سے پی ڈی ایم کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ افغانستان کی صورتحال کے باعث جے یو آئی ف کی اہمیت بھی پہلے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ اس بار اپوزیشن جماعتوں کو اس طرح کا چکر نہیں دیا جاسکے گا جیسا پہلے کئی بار دیا جا چکا ہے۔ آزاد تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے پی ٹی آئی سے کچھ نہ کچھ فاصلہ رکھنا اور حزب اختلاف کے خلاف ہاتھ ہولا رکھنا اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ضرورت ہے۔
الٹی گنتی شروع ہوچکی؟
11:33 AM, 22 Oct, 2021