حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وزیرِ تعلیم شفقت محمود کے حوالے سے بڑی دلچسپ پوسٹ وائرل ہے، "ہم لیپ ٹاپ نہیں نمبرز بانٹتے ہیں "۔ کورونا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش کی بناء پر حالیہ دنوں میں جو انٹرمیڈیت اور میٹرک کے نتائج آئے ہیں وہ نہ صرف حیرت انگیز بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑے انوکھے ہیں۔ تعلیمی میدان میں دن رات محنت کر کے ایک ذہین طالبعلم جو نمایاں پوزیشن حاصل کرتا ہے وہ یقیناً اس کا مستحق ہوتا ہے تاہم اس سال میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے سالانہ امتحانات کے نتائج میں ملک بھر کے بیشتر تعلیمی بورڈوں نے سینکڑوں طلباء کو 1100 میں سے 1100 نمبر دے کر حیران کر دیا ہے جس کی ممکنہ قباحتوں پر تعلیمی حلقوں کی طرف سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پنجاب میں حیرت انگیز طور پر ملتان بورڈ کے 550 طلباء و طالبات نے 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کئے ہیں۔ ڈی جی خان بورڈ کے 432، بہاولپور بورڈ کے 242، لاہور بورڈ کے 707، بچوں نے 1100 میں سے 1100 نمبر حاصل کر کے دنیا بھر کے تعلیمی ماہرین کو نہ صرف حیرت زدہ کر دیا بلکہ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ملک بھر کے لاکھوں طلباء و طالبات حالیہ تعلیمی نتائج میں کامیابی حاصل کر کے محض اس لئے انٹرمیڈیت سال اول میں داخلے سے محروم رہ جائیں گے کہ غیر معمولی طور پر اعلیٰ نتائج سے کالجز کے میرٹ میں اضافہ ہو گا۔ اعلیٰ ترین نتائج کی صورتحال یہ ہے کہ فیصل آباد بورڈ میں کامیابی کا تناسب 99.4 فیصد، گوجرانوالہ بورڈ 99.29 فیصد، ساہیوال 99.33 فیصد، راولپنڈی بورڈ کا 99.1 فیصد رہا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیت کے طلباء و طالبات کی جانب سے امتحانی نتائج میں حاصل کردہ نمبروں نے سنجیدہ فکر عوام کو حیران کر دیا ہے کہ یہ کیسے نتائج ہیں جن میں سینکڑوں امیدواروں نے 100 فیصد نمبر حاصل کر لئے ہیں۔ کورونا وباء کی آڑ میں رعایتی نمبروں کی لوٹ سیل پر ہر کوئی انگشت بدنداں ہے۔ رعایت دینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہئے تھا کہ تمام طلباء کو نہ صرف کامیاب قرار دے دیا جائے بلکہ انہیں پورے نمبر بھی دے دئے جائیں۔ ہم نے ایک ایسے غلط کار نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو آنے والے
برسوں میں معاشرے میں تعلیمی تفریق اور محنتی طلباء میں احساسِ کمتری کا باعث بنے گا۔ بظاہر ہم نے خود کو ایک بحران سے نکال لیا ہے لیکن آنے والے برسوں میں نظامِ تعلیم، غریب اور محنتی طلباء کے مستقبل کے لئے ایک ایسا تعلیمی خلاء پیدا کر دیا ہے جو مدتوں تک پورا نہیں ہو سکے گا۔ ایسے امتحانی نتائج پر بغلیں بجانے کی بجائے غور و فکر کی ضرورت ہے۔
کورونا کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ اس نے کسی ایک ملک یا خطے کو نہیں بلکہ عالمی سطح پر تعلیم و تعلم کی تمام سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش سے ہونے والے نقصان اور طلباء و طالبات پر اس کے اثرات کا اندازہ لگایا جانا ابھی باقی ہے۔ ایسے میں ان نتائج سے تو یہی لگتا ہے کہ بچوں کو نہ تو اساتذاہ کی تربیت اور نہ ہی تعلیمی اداروں کی کوئی ضرورت ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو اساتذہ کی تربیت اور اداروں کی بلڈنگز کھل کر سامنے آنے نہیں دیتی ہیں بلکہ ان کے لئے رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ وبائی بحران میں گزشتہ دوسال کے دوران بچوں کی پڑھائی جاری رکھنے کے لئے آن لائن طریقہ تعلیم اپنایا گیا۔ اساتذاہ کو یہی شکایت رہی کہ بچے آن لائن کلاسز میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ دوسرا سب کو انٹر نیٹ اور سمارٹ فون کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ اس کے علاوہ کورونا نے سکولوں تک رسائی، سیکھنے کے نتائج اور ڈیجیٹل رابطے میں عدم مساوات کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ اس وبائی مرض کی وجہ سے بچوں کا اساتذاہ سے رابطہ بڑی حد تک منقطع رہا، انہیں گھر میں یا تو بالکل نہیں یا بہت محدود تعلیمی مدد ملی۔ عام خیال یہی کیا جا رہا ہے تھا کہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو نما بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ زمینی حقائق یہ بھی ہیں مئوثر ڈیجیٹل وسائل بھی ساتھیوں اور اساتذاہ کے درمیان سکولوں میں حاصل ہونے والی تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتے ہیں اور پھر ایسے حالات میں اتنے شاندار نتائج پر مبارکباد کا پتہ نہیں کون مستحق ہے۔
تعلیم کے نام پر خانہ پری ہو رہی ہے۔ جب کہ ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ عصرِ حاضر میں معیاری تعلیم کی کیا اہمیت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ روزِ اول سے ہی معیاری تعلیم کی اہمیت اور افادیت مسلم رہی ہے لیکن اب گلوبلائزیشن کے بعد مقابلے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ آبادی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ملازمت حاصل کرنے کا مقابلہ سخت ہوا ہے۔ اس لئے اب تعلیمی شعبے میں ایک بڑے انقلاب کی ضرورت ہے کہ ہم عالمی پیمانے کو سامنے رکھیں اور سکول کالج سے ہی تعلیمی نظام کو درست کریں کہ جب تک ہمارا بنیادی تعلیم کا ڈھانچہ مستحکم نہیں ہو گا اس وقت تک ہم اپنی اعلیٰ تعلیم کی عمارت بلند نہیں کر سکتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بچے انٹر میڈیٹ اور میٹرک کی سطح کے امتحانات میں سو فیصد نمبر حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کے معیار پر طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہم نے کوئی ایسا سائنس دان پیدا نہیں کیا جو دنیا کے لئے مثال بن سکے۔ اگر بچے انٹرمیڈیت کی سطح پر فزکس، کیمسٹری، بائیو لوجی وغیرہ میں سو فیصد نمبر حاصل کر رہے ہیں تو پھر ریسرچ کے معاملے میں ہماری پستی باعثِ شرمندگی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ثانوی درجے کے بچے سائنس مضامین میں پرائمری سطح کے بچوں کی لیاقت سے بھی کمزور ہیں۔ انٹر میڈیٹ اور میٹرک میں زیادہ نمبر لینے سے تعلیمی شعبے میں تبدیلی نہیں آئے گی، اس کے لئے تعلیمی معیار بہتر ہونا چائے۔
آج مقابلے کا زمانہ ہے مقابلہ آرائی کے زمانے میں کوانٹٹی کے مقابلے میں کوالٹی بہت ضروری ہے۔ قوم کے انسانی وسائل کے فروغ میں بنیادی رول تعلیمی اداروں کا ہی ہوا کرتا ہے اس لئے ہمیں بہتر اور بلند معیار کے لئے معیاری اور سخت مقابلہ جاتی تعلیمی نظام اپنانا ہے۔ اس کے لئے ہمیں معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنا ہوں گے اور جو ادارے میسر ہیں ان کو جدید خطوط پر استوار کر کے ان کا معیار تیزی سے بلند کرنا ہو گا۔ آج دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہے تو کوالٹی ایجو کیشن کو اپنانا ہو گا مقابلہ آرائی سخت ہے اور مقابلہ کے میدان میں ٹھہرنے کا واحد طریقہ کوالٹی ایجو کیشن ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار نے کوالٹی ایجو کیشن کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کو لٹریسی ریٹ دکھانے کے لئے کوانٹٹی کی بھرمار کر دی ہے۔ ہماری حکومتی اربابِ اختیار سے دست بدستہ گزارش ہے کہ تعلیم کو مذاق نہ بنایا جائے اور حالیہ امتحانی نتائج پر نظر ثانی کرتے ہوئے معاملات کو درست کیا جائے۔