کیا عمران خان سیاسی شہید بننے والے ہیں؟

Muhammad Awais Ghori, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

آپ اتفاق کریں یا نہ کریں مگر امریکی سیاستدان جان ایڈمز کا یہ مقولہ بہت مشہور ہے۔”یاد رکھو!جمہوریت ہمیشہ نہیں رہتی، یہ جلد ضائع ہو جاتی ہے، تھک جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں کبھی کوئی ایسی جمہوریت نہیں رہی جس نے خود کشی نہ کی ہو“۔
کہا جاتا ہے کہ عمران خان جس چیز کی ٹھان لیتے ہیں اسے حاصل کرنے کیلئے وہ کسی اصول، ضابطے، قول و قرار، قانون اور اخلاقیات کی پاسداری نہیں کرتے اور ان کا قریبی حلقہ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ایک جنونی انسان ہیں،ان کا تعلق ایک نسبتاً امیر خاندان سے تھا، پرورش بہت امیر نہیں مگر سفید پوش خاندانوں سے قدرے بہتر ماحول میں ہوئی، ان کے والد پی ڈبلیو ڈی میں ایکسین تھے اور بعد ازاں وہ تعمیرات کے شعبہ سے منسلک رہے اور گزارے لائق پیسے کمائے۔یعنی بچپن نے انہیں خاندان کی طرف سے اعتماد ملا، جوانی میں ان کی مردانہ وجاہت اور شخصیت کا کرزما سر چڑھ کر بولتا تھا اور پھر کرکٹ کے سٹار بننے کے بعد یہ نشہ دوآتشہ ہو گیا، عمران خان نے ان تمام ہتھیاروں کا استعمال کر کے خوب مزے کئے، تفصیل میں کیا جانا مگر عمران خان کو یہ معلوم ہے کہ کب کون سا ہتھیار استعمال کرنا ہے، اپنے مقصد کے حصول کیلئے انہیں کسی اصول ضابطے کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے، انہیں قطعاً اس ملک کی بہتری کی پرواہ نہیں، وہ اس قابل ہیں اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں، ان کی شاندار زندگی وزارت عظمیٰ کے بغیر ایک مذاق تھی اور وہ زرداری اور نواز شریف کی طرح اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے تھے اور ایسا انہوں نے ہر قیمت میں حاصل کر لیا۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا آئینی طریقہ کار یہ ہے کہ وزارت دفاع کے توسط سے تین ناموں پر مشتمل پینل وزیر اعظم ہاؤس بھجوایا جاتا ہے جن میں سے کسی ایک کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کر کے اس کا اعلامیہ وزیر اعظم آفس سے جاری کیا جاتا تھا، آخری مرتبہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیر 
الاسلام عباسی کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کرنے کا اعلامیہ وزیر اعظم آفس سے جاری کیا گیا لیکن اس کے بعد یہ ذمہ داری بھی آئی ایس پی آر نے سنبھال لی۔ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور اب لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی کا اعلان وزیر اعظم آفس کے بجائے افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ نے کیا۔
عمران خان اگر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا اعلان کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ملکی تاریخ کا منفرد اور انوکھا واقعہ ہو سکتاہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ وزیر اعظم جب اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتار دیا جاتا ہے 7اکتوبر 1999ء کو ایک انگریزی اخبار نے ایک خبر شائع کی کہ جس میں بتایا گیا کہ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی ہے اور اس کو ایسا رنگ دیا گیا جیسے ان کو وزیر اعظم سے ملاقات کرنے پر قبل از وقت ریٹائر کیا جا رہا ہے۔اسی خبر کو پاکستان کے ایک نظریاتی اردو اخبار نے کاپی کیا اور یہاں سے یہ خبر وائرل ہو گئی۔سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر)چوہدری افتخار علی خان اور پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کی طرف سے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر راشد قریشی سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اس خبر کی وضاحت یا تردید کی جائے۔جس پر بریگیڈیئر راشد قریشی نے جواب دیا کہ ”آرمی چیف سری لنکا میں ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر کوئی خبر جاری نہیں کی جا سکتی“۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خبر بھی ایک وجہ تھی جو 12اکتوبر کے سانحہ کا باعث بنی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جیل میں پہنچ گئے، انہیں جلا وطنی کاٹنا پڑی مگر جب وہ دوبارہ وزیر اعظم بنے تو اس بار انہیں نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور کی طرف سے ”مسترد“کی ٹویٹ واپس کروائی اور پھر ایک بار پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
آج کی صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم عمران خان کی طر ف سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر تحفظات کو سابقہ آئینی کوششوں سے نتھی کر سکتے ہیں؟۔ نہیں! ہم ایسا بالکل نہیں کر سکتے۔پاکستان کی تاریخ میں دو مرتبہ ایسا ہوا کہ وزراء اعظم نے اپنے آئینی اختیار کا بھرپور استعمال کیا اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے وقت آرمی چیف کی منشا و مرضی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا، بینظیر بھٹو جب پہلی بار وزیر اعظم بنیں اور جنرل حمید گل کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا گیا تو آرمی چیف جنرل اسلم بیگ مرزا نے تین ناموں پر مشتمل پینل بھجوانے کی کوشش کی مگر محترمہ نے کہا ”اس کی ضرورت نہیں، میں فیصلہ کر چکی ہوں“۔ اور پھر محترمہ نے جنرل (ر) شمس الرحمن کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا۔ اسی طرح جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تو انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل (ر)جاوید ناصر کو آرمی چیف کی مرضی کیخلاف ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا۔ ان دونوں مواقع پر ایسا ہوا کہ جی ایچ کیو نے ان اقدامات پر اہم اجلاسوں میں ڈی جی آئی ایس آئی کو بلانا چھوڑ دیا اور عملاً یہ دونوں اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے ادانہ کر سکے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ تین سال سے زائد گزر چکے ہیں، ان کی حکو مت بیڈ گورننس کی بدترین مثال ہے، بدانتظامی، نالائق ترین لوگوں کا دور دورہ ہے، ہر طرف کرپشن کا راج ہے مگر اقتدار کا نشہ دو آتشہ ہو چکا ہے اور منہ کو لگی ہوئی، اب چھٹ نہیں رہی، یہ بھی معلوم ہے کہ کسی بھی صورت اگلا الیکشن پرانے طریقے سے جیتنا ممکن نہیں تو عمران خان نے ایک ترپ کا پتہ پھینکا ہے۔اگر وہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعینائی کا نوٹیفکیشن مسترد کروا دیتے ہیں تو وہ پاکستانی تاریخ میں سویلین بالا دستی کے ہیرو بن جائیں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پاتے اور اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی نہیں لگا پاتے اور انہیں گھر جانا پڑتا ہے تو پھر وہ سیاسی شہیدبن جائیں گے اور پھر اپوزیشن کو معلوم ہو گا کہ سیاسی شہید بننا کیا ہوتا ہے، جمہوریت کی بالادستی کیسے قائم کی جاتی ہے؟ آئینی حکومت کو گھر بھیجا جائے تو اس کو کیش کیسے کروایا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اپوزیشن جماعتوں کیلئے بہترین موقع ہو گا کہ عمران خان سے یہ سب گر سیکھ لیں۔ درحقیقت جمہوریت پسند ایک اور مشکل کا شکار ہیں، وہ کسی نے اس موقع پر بہت خوب کہا کہ جو ووٹ چوری کر کے وزیر اعظم بنا ہے وہ اب ہمیں جمہوریت کی بالادستی کے گر سکھائے گا“۔