اسلام آباد: مشیر داخلہ برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیخلاف مقدمہ قابل ضمانت ہے تاہم اس کیس میں ان کی گرفتاری سمجھ سے بالاتر ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صفدر اعوان کو قابل ضمانت جرم میں گرفتار کیا گیا۔ سندھ پولیس نے اپنے ٹویٹ میں اس گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا۔ سب سے پہلے سندھ حکومت نے واقعہ کی انکوائری کا اعلان کیا۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ سندھ پولیس کو احکامات کہاں سے ملتے ہیں۔ آئی جی اغوا ہوئے ہیں تو سندھ حکومت نے ایف آئی آر درج کرائی ہوگی، ہمیں بتایا جائے انکوائری کے بعد آپ کا بیان کیوں بدلا؟ سندھ پولیس کی جانب سے خطوط آنے لگے حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اس معاملے پر پریس کانفرنس کرتے ہیں، اس سے پہلے صحافیوں کو کہا گیا اغوا پر سوال نہیں کرنا۔ اس پریس کانفرنس کے بعد شام تک ایسا کیا ہوا جو نیا کھیل رچانا شروع کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ بتائیں انہیں کس وفاقی وزیر نے فون کیا؟
ان کا کہنا تھا کہ شبلی فراز انہیں بنارسی ٹھگ اور میں جھوٹوں کا آئی جی کہتا ہوں۔ کچھ روز پہلے مزار قائد پر بدترین ہلڑ بازی ہوئی تھی جس کیخلاف لوگوں نے تھانے میں درخواست دی جس پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے مقدمہ درج کر لیا۔ اس میں پی ٹی آئی کا کردار صرف اس حد تک تھا کہ قوانین سامنے رکھے گئے۔اس کے بعد خود مختار سندھ حکومت کا کردار شروع ہوتا ہے۔ سندھ حکومت کے ماتحت ادارے نے ایف آر کاٹی اور گرفتاری کی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ عوام کو ورغلانے والوں کی حقیقت سب جانتے ہیں۔ جھوٹ اور ریاکاری ان عناصر کی سیاست کا اہم ستون ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کل اسمبلی کے فلور پر غلط بیانی کی۔ ان کی کوشش ہے کہ سندھ حکومت کی نااہلی اور کرپشن کو چھپا سکیں۔ یہ ذہنی طور پر گھبراہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں مراد علی شاہ کے سفید جھوٹ کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ جلسوں کا رسپانس دیکھ کر یہ ہر طرح کے جھوٹ بول رہے ہیں۔ جرم کو چھپانے کیلئے انہوں نے نیا ڈرامہ رچایا۔ یہ لوگ بری طرح ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ مزار قائد پر طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہوئے اس کی بے حرمتی کی گئی۔ مزار قائد پر ہلڑ بازی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ سب اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ایک ہو چکے ہیں۔ یہ کمروں میں ایک بات کرتے ہیں تو باہر آکر دوسری بات کرنے لگ جاتے ہیں۔