کاشف مرزا
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ڈالر کو آزاد چھوڑ کر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا گیا، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملکی قرضے میں چار ہزار ارب روپے کااضافہ ہواتھا، اسحاق ڈار نے ڈالر کو 200 روپے سے کم اورروپے کی قدرکوبہترکرنے کاعزم کیاہے۔پاکستان کی بدقسمتی کہ ہر دور میں حکمران معیشت کی تباہی کی ذمہ داری سابقہ ادوار کی غلطیوں کو گردانتے آرہے ہیں۔ موجودہ تشویشناک صورتحال، سیاسی عدم استحکام، کمزور معاشی حالات، گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتا ہوا کرنٹ اکاﺅنٹ اور تجارتی خسارہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی پاکستان کیلئے منفی کریڈٹ ریٹنگ، انٹرنیشنل مارکیٹ میں حکومتی بانڈز کی قیمت میں ریکارڈ کمی، عالمی کساد بازاری سے ملکی ایکسپورٹ میں کمی، 30فیصد افراط زر، روپے کی قدر میں کمی اور لانگ مارچ سےانٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستان کو آئندہ 5 سال میں ڈیفالٹ کاخطرہ بڑھ کر 75فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو فروری 2020 میں کورونا سے پہلے صرف 5 سے 6 فیصد تھا اور IMF پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 30 فیصد ہوگیا تھا لیکن IMF کے 6.5 ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی اور1.2 ارب ڈالر کی قسط ملنے اور دیگر مالیاتی اداروں ورلڈ بینک،ایشین ڈویلپمنٹ بینک اوراسلامک ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے 6.5 ارب ڈالر فنڈز کے اعلان کے بعد پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں کمی آئی تھی لیکن موجودہ معاشی صورتحال، سیلاب کے متوقع 30ارب ڈالر کے معاشی نقصانات، سیاسی عدم استحکام اور موڈیز اور فٹچ کی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی کرنے کی وجہ سے یہ خطرہ دوبارہ بڑھ گیا ہے۔جس سے حکومتی ڈالر سکوک بانڈز کی قیمت پر اثر سے پاکستانی بانڈز کی قیمت 60 سے65 فیصد کم ہوگئی ہے، اور2024اور2036میں واجب الادا بانڈزکی قیمتیں نچلی ترین سطح پرآچکی ہیں۔پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 42 فیصد قرضے کنسورشیم ممالک، 40 فیصد باہمی ممالک، 7 فیصد عالمی بانڈز مارکیٹ اور 7 فیصد کمرشل بینکوں کے ہیں۔ رواں مالی سال 2022-23ءمیں پاکستان کو 32 سے 34 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے جبکہ ہمارے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 7.5ارب ڈالر رہ گئے ہیں جواگست2021 میں20ارب ڈالر تھے۔سیلاب کے معاشی نقصانات کے پیش نظر پاکستان نے چین سے 6.3ارب ڈالراورپیرس کلب 27 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی درخواست بھی کی، جبکہ 2023 میں پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے 22.8 ارب ڈالر کے فنڈز ملنے کی توقع ہے جن میں چین، یو اے ای اور سعودی عرب کے سافٹ ڈپازٹ بھی شامل ہیں۔IMF کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح79 فیصد ہے جسے 2027ءتک کم کرکے 60 فیصد تک لانا ہوگا کیونکہ اضافی قرضوں سے قومی خزانے پر سود کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام (UNDP) کے مطابق کساد بازاری کی وجہ سے دنیا کے 54 ممالک معاشی بحران کا شکار ہیں جس میں 46 ممالک کے قرضے 2020میں بڑھ کر782 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جن میں ارجنٹینا، یوکرین، وینزویلا، سری لنکا، پاکستان، تیونس، چاڈ اور زیمبیا شامل ہیں۔ سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم تقریباً ساٹھ ٹریلین روپے ہو گیا ہے جبکہ اندرونی قرضوں کا حجم بھی تیس ٹریلین روپے کے قریب ہے۔
پاکستان معاشی بحران پر قابو پانے کیلیے قابل عمل پالیسی کی تلاش میں ہے۔ ان حالات میں خوش آئیند ہے کہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے 1.5ارب ڈالر کے فنڈزاسٹیٹ بینک کے اکاﺅنٹ میں جمع کرادیئے ہیں جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 9ارب ڈالر تک پہنچ جائینگے جس میں کمرشل بینکوں کے5.7ارب ڈالر شامل نہیں لہٰذاملکی امپورٹس میں کمی اور ایکسپورٹس میں اضافہ سے تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں کمی لانا ہوگی۔CPEC معاہدے پر دستخط سے پہلے چین کی پاکستان میں کل سرمایہ کاری 15 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی، جو اب بڑھکر 33 بلین ڈالر سے تجاوزکر چکی ہے۔ چینی کمپنی ہوواے 2018 میں43 ملین ڈالرکے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔2015 میں صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان اور چین نے سی پیک معاہدے پر دستخط کئےہیں۔CPEC سے متعلقہ توانائی کے منصوبوں نے کوویڈ 19 کے دوران 23,000 افراد کو ملازمتیں فراہم کیں۔ توقع ہے کہ CPEC کا دوسرا مرحلہ معاشی ترقی اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا، چینی کمپنیوں نے پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی ہے جس کے کثیر جہتی فوائد ہیں۔اس میں6.4ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے اوراس سے 4,500 میگا واٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔ یہ تعمیراتی مرحلے کے دوران 16,000 ملازمتیں پیدا کرے گا۔ ڈیم پاکستان کو 1.2 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے میں مدد دے گا، جس سے غیر ہنر مند مزدوروں کیلیے روزگار کو فروغ ملے گا۔ اسکے علاوہ، یہ خوراک اور غیر غذائی مصنوعات کی بہتر پیداوار کے ذریعے صنعت کیلیے غذائی عدم تحفظ اور خام مال کی قلت سے نمٹنے میں مدد کرے گا۔ توانائی کے شعبے میں داسو، کروٹ اور آزاد پتن منصوبے قابل تجدید اورنمایاں ہیں۔امریکہ اورچین شدید اقتصادی اورتجارتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔چین 1.4بلین لوگوں کی ایک بہت بڑی منڈی ہے، مارکیٹ سائز میں بڑے فرق کی وجہ سے امریکہ چین کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چین نے CPEC اور ہمیشہ اپنے بے مثال تعاون کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، دوسری طرف یورپ اورامریکہ نے پاکستان کو جھکانے کیلئے FATF، IMF اور دیگر اداروں کو استعمال کیا، یہ عالمی سیاسیت، معیشت اور پاور پلے ہے۔ امریکہ اور یورپ پاکستان سے ناراض رہے گاجب تک وہ CPEC اور چین کو ترک نہیں کر دیتا، باوجود اسکےامریکا اوریورپ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیں گے۔بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔