ایک شخص کی کسی سے تلخ کلامی ہوئی، اس نے غصے میں مکہ بناتے ہوئے کہا کہ میں مکا مار کر تمہارے 34 دانت نکال دوں گا جس پر برابر میں کھڑے شخص نے کہا کہ دانت 34 نہیں 32 ہوتے ہیں، اس شخص نے جواب دیا مجھے پتہ تھا تم ضرور بولو گے لہٰذا میں نے تمہارے دو دانت پہلے ہی شامل کر لیے تھے جب نیازی صاحب وزیر اعظم تھے ایک ”قانون دان“ جس کے سیاسی قد کاٹھ سے آواز بھاری ہے نے آئین کے مطابق رائے دی کہ آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے اب وہ کبھی فرما رہے ہیں کہ صدر سرپرائز دیں گے۔ کبھی وہ عمران نیازی کو بھوت بنا کر پیش کر رہے ہیں جو فضا میں گھوم رہا ہے جبکہ وہ تو اب سائے سے بھی گھبرانے لگے جو کہا کرتے تھے گھبرانا نہیں ہے۔ گوجرانوالہ کی ایک با اثر پہلوان شخصیت ٹرانسپورٹر تھی۔ ان کے پاس دوستوں کی بیٹھک لگی رہتی تھی جن میں ان کے ایک دوست قاضی صاحب تھے۔ قاضی صاحب گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ چاچا قاضی کی باتیں محفل کو زعفران بنا دیتیں۔ سمجھدار، شریف انسان تھے بس ایک مسئلہ تھا کہ جھوٹ بولتے تھے جس کا حاصل بھی کچھ نہ ہوتا۔ مثلاً جی ٹی روڈ پر جا رہے ہیں تو خواہ مخواہ سڑک کنارے کسی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ فلاں ایس پی کے والد کی کوٹھی ہے، برابر میں بیٹھے دوست کے بیٹے نے کہا کہ چاچا یہ تو ڈاکخانہ ہے۔ کہنے لگے چپ کر بڑوں کی بات میں نہیں بولتے۔ ایک دن پہلوان کے دوستوں نے کہا کہ قاضی صاحب سے کہیں کہ جھوٹ چھوڑ دیں۔ جب محفل جمی اور قاضی صاحب آئے تو پہلوان نے کہا، قاضی صاحب جھوٹ چھوڑ دو، قاضی نے فی البدیہہ اور بڑی تمکنت سے پہلوان سے اونچی آواز میں جواب دیا، پہلوان جی آہستہ آہستہ جھوٹ چھوڑ دوں گا یکدم نہیں چھوڑ سکتا۔ یہی حالت عمران خان کی ہے۔ بیانیہ ساز پارٹی کے ہیڈ ہیں، اقتدار سے محرومی پر امریکی سازش، نیوٹرل، غدار، جانور، میر جعفر میر صادق، ہینڈلرز کی گردان کی اور اب آہستہ آہستہ انہی قدموں سے اس بیانیے سے واپسی کی۔ گویا یکدم نہیں آہستہ آہستہ بیانیہ چھوڑ دیا۔ بلاول بھٹو نے پچھلے دنوں پریس کانفرنس کی جس میں صدر سے توقعات رکھنے والے پی ٹی آئی کے حامیوں کے ٹوئٹر پیغامات کا جواب بھی دیا اور صدر سے متعلق آئینی کردار کی بات کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر صدر نے آرمی چیف کی تقرری پر کوئی مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹوئٹر پر سیاست کرنے والوں نے اس کو دھمکی سمجھا حالانکہ یہ آئینی صورتحال ہے۔ اس بیان کو انتہائی شرمناک قرار دیا، کسی نے بلاول بھٹو کی لرزتی ٹانگیں محسوس کیں دراصل یہ بیان آئین کی عام فہم تشریح تھی۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو گی کہ ”لانگ مارچ“ جو نہ جانے کیا مارچ ہے جس کا کوئی مقصد نہیں سوائے پریشر، دباو¿ جاری رکھنے کے لیے جب تک انتخابات نہ آ جائیں، کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر فوری انتخابات چاہئیں تو جن چار صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہ اسمبلیاں تحلیل کریں قومی اسمبلی سے استعفوں کے بعد لی جانے والی تنخواہیں واپس کریں۔ انتخابات موجودہ حکومت کی ضرورت بن جائیں گے۔ مگر وزیراعظم کے علاوہ کوئی دوسری صورت وارے میں نہیں۔ ایک بہت پرانی فلم تھی جس میں مرکزی کردار علاو¿ الدین نے ادا کیا تھا۔ ”پھنے خاں“ دوستوں کے ساتھ ایک میلے میں تھا ۔ پھنے خاں کے دوست کہتے ہیں کہ بڑھک مارو۔ پھنے خاں کانپتی آواز اور ٹانگوں کے ساتھ کہتا ہے، مروا نہ دینا۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا، تم بڑھک مارو۔ پھنے خاں بڑھک مارتا ہے، اوئے بکری آ آ آ۔ سامنے سے حقیقی پہلوان بھی آ جاتے ہیں۔ وہ جواب میں بڑھک مارتے ہیں، ان کی بڑھک سنتے ہی پھنے خاں اپنے دوستوں سے آہستگی سے کہتا ہے، مروا دیا ہے ناں۔ وہ کہتے ہیں، تم پھر بڑھک مارو، فکر نہ کرو کچھ نہیں ہوتا۔ پھنے خاں دوبارہ بڑھک مارتا ہے اور دوسری جانب سے بھی بڑھک کے ساتھ وہ حقیقی پہلوان بھی بڑھک مارتے ہیں تو پھنے خاں پھٹی ہوئی آواز کے ساتھ ہلکی سی یوٹرن ٹائپ بڑھک مارنے کے ساتھ ہی دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ پولیس آ جائے۔ اتنے میں پولیس آ کر دونوں پارٹیوں کو گرفتار کر کے لے جاتی ہے۔ اس وقت چاروں صوبوں میں حکومت اور مرکز میں اپوزیشن جس کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں کی بڑھک بازی اور لانگ مارچ الزامات میں آرزو ہے کہ پولیس آ جائے اور حقیقی پہلوان گرفتار ہوں، اپنا کیا ہے سات دن کے اندر اندر سادہ کاغذ پر دستخط کر کے جان چھڑا لیں گے۔ بعد میں اسی انداز کی ایک اور پنجابی فلم تھی ”ٹہکا پہلوان“۔ اس کا کردار فلم سٹار ننھا نے کیا تھا۔ ایک منظر میں ٹہکا پہلوان سے ایک عورت فریاد کرتی ہے کہ پولیس اس کے بیٹے کو پکڑ کر لے گئی ہے۔ ٹہکا پہلوان کا چچا ڈی ایس پی ہے۔ ٹہکا پہلوان تانگے پر سوار ڈی ایس پی صاحب کے دفتر جاتا ہے، باہر لوگوں کا ہجوم ہے، ملزم کی ماں ہے اور ٹہکا پہلوان کا خاص حواری لوگوں سے کہتا ہے، اس وقت ڈی ایس پی خان بہادر ٹہکا پہلوان کے پاو¿ں پکڑ کر منت کر رہا ہو گا کہ ملزم چھوڑ دیتا ہوں آپ نے خود تکلیف کیوں کی۔ جب سنیما سکرین پر ڈی ایس پی کے دفتر کا منظر دکھاتے ہیں تو ٹہکا پہلوان ڈی ایس پی کے پاؤں پڑا ہوا ہوتا ہے کہ چاچا جی اللہ واسطے ملزم چھوڑ دیں، معاف کر دیں، میری بہت بدنامی اور بے عزتی ہو گی اگر میں ملزم نہ چھڑا سکا۔ یہی صورت حال ہمارے سیاسی ماحول کی ہے اندر ڈی ایس پی کے پاؤں پکڑے جا رہے ہیں باہر بڑھکیں ماری جا رہی ہیں اور حواری ٹوئٹر پر عمران بنو گے اور کچھ قیادت اپنے نام کو ہی استعمال کر رہی ہے کہ فلاں بنو گے۔ اب ان سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ”بھٹو بنو گے“۔ حالات نے لوگوں کو ریٹنگ اور فالوئنگ کے چکروں میں ڈال دیا ہے۔ جس پر پی ٹی آئی کا قبضہ ہے مگر 24 کروڑ عوام میں کتنے ہیں جو ٹوئٹر پر ہیں میرا خیال ہے EVM بھی چھوڑیں آئندہ انتخابات ٹوئٹر پر کرا لیں تو عمران خان کے لیے آسانی ہو گی۔ مجھے آج چند فلمی مثالوں کا سہارا لینا پڑا کیونکہ حقیقی تاریخ میں عمران خان جیسا کردار نہیں ملتا۔ حقیقت میں وطن عزیز کے حالات ناقابل بیان حد تک خراب ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ آرمی چیف کا عہدہ پوری دنیا میں زیر بحث لایا گیا یہ سب نیازی صاحب کی اقتدار سے جدائی کا نتیجہ ہے۔ وزیرداخلہ کا بیان پڑھ کر بڑی تشویش ہوئی کہ دشمن ممالک کی ایجنسیوں سے عمران کی جان کو خطرہ، الزام فوج اور آئی ایس آئی، وزیراعظم اور وزیر داخلہ پر لگے گا۔ عمران خان کی سیاست ملک کو انگاروں کی طرف دھکیل رہی ہے مگر وہ دعا گو بھی ہیں کہ یا اللہ پولیس آ جائے جس کے اہتمام کے لیے بلاول بھٹو کا حالیہ بیان ہے جو آئین کے مطابق ہے۔ الفاظ کا چناو¿ سیاسی ہے مگر کئی ہستیوں کے 2/2 دانت شامل کر لیے گئے ہیں۔
بلاول کا بیان اور 34 دانت
02:54 PM, 22 Nov, 2022