میں شعوری طور پر ”خیالِ خاطرِ احباب“ کے سنہری اصول پر کاربند رہتا ہوں کہ آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ آج کل تو آفاق کی کار گہِ شیشہ گری کی نزاکتیں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔ آبگینے کو ذرا سی ٹھیس بھی پہنچ جائے تو ایسا چھناکا ہوتا ہے کہ اَرض و سما لرز اٹھتے ہیں۔
عالی مرتبت سراج الحق صاحب کی میرے دل میں بے پناہ قدر و منزلت ہے۔ وہ سید مودودیؒ کی مسندِ فضیلت پر فروکش ہیں اور یہ بڑے اعزاز و افتخارکی بات ہے۔ اِس سرکاری و سیاسی منصب سے قطع ِنظر سراج الحق ایک فقیر منش اور درویش صفت انسان ہیں۔ میری ہی طرح زیریں متوسط بلکہ غریبانہ پس منظر رکھتے ہیں۔ روایتی سیاستدانوں کا شکوہ و جلال انہیں چھو کربھی نہیں گزرا۔ ہماری سیاست میں ایسے قلندروں کا وجود غنیمت ہے۔
آج عالی مقام کا ایک ایسا بیان نظر سے گزرا کہ خیال ِخاطرِ احباب کا اصول بھی پس منظر میں چلا گیا اور میرا قلم میری گرفت میں نہیں رہا۔ لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا”آرمی چیف کی تقرری کے لئے وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ختم ہونا چاہئے۔ یہ تقرری چیف جسٹس آف پاکستان کی طرح( سنیارٹی کی بنیاد پر )ہونی چاہیے۔ اِس معاملے کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ اس طرح کی تقرری کے لئے سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہوں۔ سیاسی کھینچا تانی کے بعد جو آرمی چیف آئے گا، وہ ادارے کو دیکھے گا یا سیاسی پارٹیوں کے مفادات کو۔۔۔“
مجھے یقین ہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوری نے اس مسئلے پر کوئی خصوصی اجلاس نہیں بلایا۔ یہ معاملہ زیر بحث آیا نہ جماعت نے کوئی واضح موقف اپنایا۔ یہ خیالِ بلند سراج الحق صاحب ہی کی افتاد طبع کی شاخ فکر پر پھوٹا ہے۔ سراج الحق صاحب کی اِس تجویز سے اس پچہتر سالہ دستوری تقاضے اور پختہ روایت پر کاری ضرب لگی ہے جو کبھی متنازع نہیں رہی۔ اس سے عملاً آرمی چیف کے انتخاب اور تعیناتی کا استحقاق و اختیار خود فوج کو منتقل ہو جائے گا۔ سراج الحق صاحب نے یاد دلایا کہ دنیا میں کہیں بھی سیاسی جماعتیں اِس طرح چیف کی تقرری کے لئے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگاتیں۔ کیا اُنہیں یاد ہے کہ ماضی میں ہمارے ہاں بھی کبھی یہ تقرری متحارب سیاسی جماعتوں کی باہمی رسہ کشی کا موضوع نہیں بنی۔ کیا سراج الحق صاحب قوم کو آگاہ کر سکتے ہیں کہ 2018 میں جنم لینے والے ”نئے پاکستان“سے قبل کسی ادنیٰ درجے کے سیاسی راہنما نے بھی اس تقرری کو ایسے بھونڈے انداز میں متاع ِکوچہ و بازار بنایا ہو؟ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں چیف ایگزیکٹو ، چاہے صدر ہو یا وزیراعظم ، کے اِس صوابدیدی اختیار پرکوئی قدغن ہو؟ اور کیا کسی سیاستدان کے لئے یہ کہنا مناسب ہے کہ ”آرمی چیف کی تقرری کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ؟“ سراج الحق صاحب کو کچھ اندازہ ہے کہ تخلیق پاکستان سے اب
تک خود سیاستدان کن منہ زور اور تلاطم خیز ہواﺅں کے رحم و کرم پر رہے ہیں؟ ہماری بے چہرہ جمہوری تاریخ کے بے مہر موسموں نے سیاستدانوں کے پاس چھوڑا ہی کیا ہے؟ سراج الحق خود پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں۔ کیا انہیں پارلیمان اور جمہور کے نمائندوں کی بے بال و پری کا اندازہ نہیں؟ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ جابروں کے تصرّفات اور زور آوروں کے تجاوزات جمہوریت کی دو مرلے کی کٹیا کی دہلیز تک آن پہنچے ہیں؟
آپ نے سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس صاحبان کی تقرری کے ثمراتِ شیریں کا بھی ذائقہ چکھ لیا ہوگا۔ حال ہی میں آب زمزم سے دھلی مصفیّٰ چھلنی سے چھن کر آنے والے آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار نے بیاض عدل کے اوراق پر کتنے سنہری نقوش چھوڑے ہیں؟ سراج الحق صاحب کو یہ تو ضرور معلوم ہوگا کہ صرف اور صرف سنیارٹی کا اصول خود مسلح افواج میں بھی رائج نہیں۔ فوج میں کرنل، بریگیڈئر، میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدوں پر ترقی دیتے وقت بھی سنیارٹی کے اصول کو نہیں اپنایا جاتا۔ ”سُپر سیڈ“ کا لفظ اُن ”اُفتاد گان“ کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سینئر ہونے کے باوجود اگلے عہدے پر ترقی نہیں پا سکتے اور ان کے جونیئر رفقا آگے نکل جاتے ہیں۔ صدر، وزیراعظم، کابینہ، وزارت دفاع، پارلیمنٹ، عدلیہ یا کسی اور ادارے نے کبھی مسلح افواج کی اِس مشق کو متنازع نہیں بنایا۔ کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ فلاں کیسے نظر انداز ہو گیا اور فلاں کو کیسے ترقی مل گئی؟ آئین کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کا صوابدیدی اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ نہ جانے کیوں یہ اختیار سراج الحق صاحب کے دل میں خارِ مُغِیلاں کی طرح کھٹکنے لگا ہے۔
سراج الحق یہ حق وزیراعظم سے چھین کر عملاً خود فوج کو دینا چاہتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ اس سے ایک منظم اور منضبط ادارے میں کیسی کیسی قباحتوں کا جھاڑ جھنکاڑاُگ آئے گا۔ امیر جماعت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی اور ملک میں آرمی چیف کی تقرری کیوں موضوع بحث نہیں بنتی؟ اُنہیں اِس بات کی بھی خبر ہے کہ پاکستان میں یہ تقرری کیوں اِس قدر اہمیت اختیار کر گئی ہے؟ وہ اِس راز سے بھی آشنا ہیں کہ تقرری کا اختیار رکھنے والا وزیراعظم کیوں وظیفوں، مراقبوں اور استخاروں میں پڑا رہتا ہے؟
بھارت اور پاکستان کا سفرِ آزادی ایک ساتھ شروع ہوا۔ سراج الحق کسی شب، نمازِ تہجد کے بعد غور فرمائیں کہ گذشتہ پچہتر برس میں بھارت کے ہاں تیس (30) آرمی چیفس آئے اور ہمارے ہاں صرف چودہ(14).... کیوں؟ اِسی عرصے میں بھارت کے ہاں صرف چودہ (14) وزرائے اعظم آئے اور ہمارے ہاں اکتیس (31).... کیوں؟ اِس ”کیوں“ کے اندر ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہے اور ہماری چیچک زدہ تاریخ کی بے چہرگی بھی۔
لیفٹیننٹ جنرل کے بلند عسکری عہدے تک پہنچنے والے سبھی افسر اہلیت، قابلیت، صلاحیت، حب الوطنی اور جرا¿ت و بہادری میں کم و بیش ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتے ہیں۔ سر فہرست چار پانچ افسران میں سے کسی ایک کا انتخاب وزیراعظم کی (اور صرف وزیراعظم کی) صوابدید ہے۔ وہ کسی سے بھی مشورہ کرنے کا مجاز ہے اور کسی سے بھی مشورے کرنے کا پابند نہیں۔ حتمی فیصلہ اس کی نوک قلم سے ہی پھوٹتا ہے۔ وزیراعظم فہرست میں سب سے سینئر کو چُنے یا فہرست میں سب سے آخری نام کو یا کسی ایسے کو جو فہرست میں شامل ہی نہیں ، اُس کی صوابدید پر منحصر ہے۔ پاکستان کا آئین یہی کہتا ہے اور اگر ہم ایک مہذب ریاست ہیں تو آئین کی پاسداری لازم ہے۔
عمران خان بازیچہِ سیاست کا ”طِفلِ خود معاملہ“ ہیں۔ ان کے لب ِلعلیں سے معطّر آبشارپھوٹے ، یا آتش فشانی لاوہ ، سب روا ہے ۔ بے ہنگم خواہشات کی ڈور کو مانجھا دے کر موسمی بے موسمی بسنت منانا اور حساس قومی معاملات کو سَت رَنگی پتنگیں بنا کر فضا میں اڑانا، عمران خان اور اُن کے فدائین کو زیبا ہے۔ اُنہیں اِس بات سے کچھ غرض نہیں کہ سیسہ پلائی ڈور کون کون سے قومی مفاد کی شہہ رگ کاٹتی ہے۔ سید مودودیؒ کی میراث تدبر کے پاسبان کو طفلانِ کوچہ وبازار کے اِس بے ذوق تماشے کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ کسی تماشا گر کی خواہش پر آئین کی چیرپھاڑ نہیں کی جاسکتی، نہ ہی دنیا بھر کی مسلمہ روایت کو پامال کیاجاسکتا ہے۔ رہی ”سلطانی جمہور“ تو وہ پہلے ہی پَرنُچی چڑیا کی طرح جانے کب سے بے مہر موسموں کے رحم و کرم پرپڑی ہے۔ سراج الحق اِس پر رحم کھائیں۔