قطر میں دنیا کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ فیفا فٹ بال ورلڈ کپ 2022ءمنعقد ہو چکا ہے، فخر اس بات پر ہے کہ وہ جدید دنیا میں اپنی روایات، کلچر اور اسلام کا مثبت چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوا ہے۔ 2010ءمیں اس چھوٹے سے ملک کو جس کی آبادی 30لاکھ اور رقبہ صرف 11ہزار مربع کلومیٹر ہے، فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی ملی تو دنیا حیران رہ گئی، کہ جو ملک ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرتا اسے امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور جاپان (جو ورلڈ کپ کا انعقاد کرانے میں قطر کے مدمقابل تھے) جیسے ممالک کو پیچھے چھوڑ کر میزبانی حاصل کی تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔حیرت اس بات پر ہوئی کہ ماسوائے ایک نسبتاً غیر معیاری سٹیڈیم کے قطر میں کوئی فٹ بال سٹیڈیم ہی نہیں تھا۔ لیکن قطر کے پاس 12سال کا عرصہ تھا جس میں وہ دنیا کو دکھا سکتا تھا کہ محنت، لگن اور جذبہ اگر ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔ اس نے ان 12سال میں 200ارب ڈالر کے مہنگے ترین 8سٹیڈیم، ہوٹلز اور سیاحتی مقامات تعمیر کیے تاکہ دنیا بھر سے متوقع طور پر آنے والے 15لاکھ افراد ورلڈ کپ سے محظوظ ہونے کے لیے ان کے ملک کا وزٹ کریں۔ ورلڈ کپ شائقین کے لیے اسلامی ملک ہونے کے باوجود قطر نے کئی سیاحتی مقامات پر شراب کی اجازت دے دی، پہلی بار دنیا کے سامنے ائیر کنڈیشنز سٹیڈیم متعارف کرائے۔ اس کے علاوہ شائقین کے لیے 1لاکھ 76ہزار کمروں پر مشتمل دنیا کے 100سے زائد مہنگے ترین ہوٹلز بنائے۔ سکیورٹی کے لیے اپنے ہمسایہ ملک ترکی سمیت پاکستان سے بھی رابطہ کیا ، جس کے بعد رواں ماہ ستمبر میں پاک قطر معاہدے کے تحت پاکستان اپنے سکیورٹی اداروں کی خدمات مہیا کرے گا۔ جس کے عوض پاکستان کو 2ارب ڈالر دیے جائیں گے۔ پھر ہر سٹیڈیم کے ساتھ 3، 4سیون سٹارز ہوٹلز تعمیر کرائے، نئی سڑکیں بنائیں۔ مطلب پورے کا پورا قطر ”سپورٹس سٹی“ بنادیا گیا۔ اس ورلڈکپ سے امید کی جا رہی ہے کہ قطر کو اتنی ہی آمدنی ہو جتنا اس نے خرچ کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ قطر نے ورلڈ کپ
کےلئے اتنی زیادہ ”ایفی شنسی “کیوں دکھائی؟ قطر نے یہ سب کچھ صرف ورلڈ کپ 2022 کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ اس کا اگلے 20سال کا منصوبہ ہے۔ اس نے اپنے ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، قطر کہتا ہے کہ اگر ہم ورلڈ کپ میں بہترین مہمان نوازی میں کامیاب ہو گئے تو یہ اگلے 20سال تک ہمیں لاکھوں نہیں کروڑوں سیاح دے گا۔ اور ملک کا ریونیو مزید بہتر ہو گا۔
یہ تھا فیفا ورلڈ کپ 2022 اور قطر کا ریویو جبکہ ہمارا ملک قطر سے 65گنا بڑا اور آبادی کے لحاظ سے 80گنا بڑا ملک ہے۔ ہم نے کرکٹ ، ہاکی ، سکوائش، سنوکروغیرہ میں دنیا کو بڑے بڑے نام دیے ہیں، مگر مجال ہے کہ ہم نے کھیلوں کے فروغ کے لیے کچھ کیا ہو۔ تبھی ہم ہاکی، سکوائش یا سنوکر میں پیچھے رہ گئے ہیں اور رہی بات کرکٹ کی تو کرکٹ میں بھی دنیا وطن عزیز میں مجبوری کے تحت آتی ہے ورنہ یہاں حال کوئی نہیں ہے۔ یہاں نا تو عالمی معیار کے گراؤنڈز موجود ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی سہولیات بس ہرطرف ٹیموں کے گردسکیورٹی ہی سکیورٹی نظر آتی ہے۔ یہاں اگر ایک بین الاقوامی میچ کا انعقاد کرانا ہوتو کئی شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہی چاہیے کہ سٹیڈیم کے ساتھ ہی فائیو سٹار ہوٹل تعمیر کیے جائیں۔ آپ دنیا کے 150ممالک میں دیکھ لیں، جہاں 50ہزار چھوٹے بڑے سٹیڈیم ہیں جن میں بین الاقوامی مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں، اور ان 50ہزار میں سے 48ہزار سٹیڈیم ایسے ہیں جن سے فائیو سٹار ہوٹلز کا فاصلہ واکنگ Distanceپر ہے۔ یعنی دنیا کے بیشتر ممالک ایسی جگہ سپورٹس کمپلیکس تعمیر کرتے ہیں جہاں فائیو سٹار ہوٹلز قریب ترین ہوں یا سپورٹس کمپلیکس کے اندر ہی بڑے بڑے ہوٹلز بنا دیے جاتے ہیں تاکہ کھیلیں اور عام زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔
الغرض ہمیں قطر سے سیکھنا چاہیے، کہ وہ دن رات کس طرح اپنے آپ کو راغب کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ یہاں کھیلوں کے بارے میں کسی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی نہیں سوچا؟کسی نے نہیں سوچا کہ یہاں نئے سٹیڈیم بنائے جائیں، یا نئے گراؤنڈ تعمیر کیے جائیں۔ حالانکہ آپ خود دیکھ لیں کہ ملک میں موجود تمام سٹیڈیمز 30،30سال پرانے ہیں جبکہ اس دوران آبادی میں 400فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ قذافی سٹیڈیم کو دیکھ لیںجسے 1959 میں بنایا گیا یعنی آج سے 63 سال پہلے لاہور شہر سے باہر نہر کے قریب بنایا گیا تھا اس وقت اس کا نام لاہور سٹیڈیم تھا۔لیکن اب یہ آبادی کے درمیان میں گھر چکا ہے۔ اور کسی بھی میچ کے دوران اس کے اطراف میں زبردست ٹریفک جام رہتا ہے۔ پھر کراچی کے نیشنل سٹیڈیم کی بات کر لیں یہ بھی 66سال پرانا ہے، یہ سٹیڈیم 1955 میں کرکٹ کی عالمی ٹیموں کی میزبانی شروع کر چکا تھا، یہاں پہلا ٹیسٹ کھیلنے بھارت کی ٹیم آئی تھی۔ نیشنل سٹیڈیم شہر کی آبادی سے باہر بنایا گیا تھا لیکن گلشن اقبال اور گلستان جوہر آباد ہونے کے بعد جب یونیورسٹی روڈ اور اطراف کے علاقے ویران سے گنجان ہو گئے تو نیشنل سٹیڈیم خود بخود شہر کے مرکز میں آ گیا۔ جبکہ راولپنڈی سٹیڈیم کی تاریخ زیادہ پرانی تو نہیں مگر زیادہ نئی بھی نہیں ہے، اسے بنے ہوئے 37 سال ہو گئے ہیں یہ سٹیڈیم بھی آہستہ آہستہ آبادیوں کے درمیان میں آ چکا ہے۔
بہرکیف دنیا آپ کو آپ کے صحت مند ہونے کی وجہ سے زیادہ جانتی ہے، اگر معاشرہ صحت مند ہو گا تو یقینا صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دے گا۔ نوجوان نسل دیگر برائیوں کی جانب راغب نہیں ہو گی۔ معاشرے میں مقابلے کا رجحان پیدا ہو گا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر آپ کی دنیا میںپہچان بنے گی۔ لیکن فی الوقت تو ماحول یہ ہے کہ آج ہم کسی بھی عالمی سطح پر ماسوائے کرکٹ کے کسی میں بھی نام بنانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ اولمپکس کھیلوں میں ہمارا نمبر 150کے بعد آتا ہے، حتیٰ کہ فٹ بال رینکنگ میں ہمارا نمبر200ممالک کی فہرست میں 194واں نمبر آتا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، اس کا سراغ حکومتوں نے لگانا ہوتا ہے۔ سہولیات دینا ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ان چیزوں کو مکمل کرنے کے لیے قطر جیسا جذبہ ہونا چاہیے جس سے سبھی فی الوقت سبھی عاری نظر آ رہے ہیں!