مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ ”ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت“جبکہ حکومتی ایوان ای وی ایم مشین پر ووٹوں کی گنتی کو انسانی گنتی پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسانی انگلیاں گننے میں بے ایمانی کر سکتی ہیں مگر وہی ہاتھ مشینوں کی چیڑپھاڑ سے بے ایمانی نہیں کریں گے۔ مختلف محکموں میں جب سالانہ آڈٹ ہوتا ہے تو ٹیمپل روڈ پر سرکاری گاڑیوں کے ڈیجیٹل میٹرز کو آگے پیچھے کرنے کے لئے قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ ہمارے انڈر میٹرک دیسی انجینئرز دنیا کی ہر مشین کو بنانے پہ قدرت نہیں رکھتے مگر ان کو توڑ موڑ کر نئی شکل دینے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔
کاریں اہل مزنگ نے بنائی ہوں گی مگر ان کے دیسی نام دیسی انجینئروں نے بڑے مزیدار رکھے ہوئے ہیں جیسے چمٹے، طوطے، ٹبریاں وغیرہ وغیرہ، کون سی گاڑی ہے جسے یہ نہیں سمجھتے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ مشینوں کی گرہیں کھول اور جوڑ لیتے ہیں۔ پی ایم ایل این اور پی پی پی عوامی جڑوں سے تو ضرور واقف ہے انہیں پتہ ہے ووٹوں والی مشین کا کیا حال ہونا ہے۔
کبھی کبھی جب ٹیپ ریکارڈ پر سوئی پھنس جاتی تھی تو ایک ہی لفظ بار بار چلنا شروع ہو جاتا تھا، خدانخواستہ اگر انتخابی مشین بھی کہیں پھنس گئی اور پی ٹی آئی، پی ٹی آئی ریکارڈ کرنے لگی، معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے، مشتری ہشیار باش…… وہ ملک جہاں چالیس چالیس آنکھیں ہاتھ پولنگ ایجنٹ مع ڈنڈے سوٹے گنتی دیکھ رہے ہوتے ہیں وہاں دھاندلی کا رولا پڑ جاتا ہے تو بے چاری ننھی منی مشین کیسے الزام سے بچ سکتی ہے……؟ مجھے تو لگتا ہے جس قدر ہمارے ہاں کرکٹ میچ اور انتخابات کا جوش و جذبہ ہوتا ہے، مشین سروں پر ”وجْھنی“ (لگنی) ہیں …… کرکٹ کے خیال سے ایک تجویز اچانک ذہن میں آئی ہے گو اس کے اثرات بھی خطرناک ہو سکتے ہیں کیوں نا بیک وقت مشین اور انسانی گنتی کروائی جائی بعد ازاں جیسے مشینی بلڈ پریشر اور پارے والے آلے کے درمیان کا نتیجہ درست سمجھ لیا جاتا ہے کوئی درمیانی راہ نکل آئے۔
بہت دکھایا ہے دل اس نے صوفیہ میرا
خدا کرے کہ اُسے میری بَددُعا نہ لگے
مگر آٹا چینی کے متاثرین یہ جذبہ نہیں رکھتے…… مجھے ”دھاندلی“ وہ لگتی ہے جب نازک اندام دلہنیں ”غیروں“ کی ڈولی چڑھا دی جاتی ہیں جب پوری زندگی بے ثمر ہو جاتی ہے، منیر نیازی نے اس دھاندلی پر کیا خوب لکھا ہے
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
تو جناب یہ ہے اصل دھاندلی حکمرانوں اور اپوزیشن کے ووٹوں کی گنتی میں چار کم دو زیادہ سے کیا ہوتا ہے جو ہماری اصلی زندگیوں میں ہو جاتا ہے۔ سروں کی گنتی کرنے والوں نے اب کے دانش و حکمت کا ٹھیکہ بھی لے لیا ہے۔ چینلز پر ایسے ایسے ”منتخب“ غلط تلفظ بچگانہ وژن اور متکبرانہ لہجوں میں بولتے ہیں تو سوچتی ہوں کہ یہ بظاہر منتخب ایک بار اپنے ووٹروں کے وژن کو تو دیکھ لیں جن میں سے بیشتر نے ابتدائی قاعدہ بھی نہیں پڑھا ہوتا۔ جمہوریت غریب اور ان پڑھ ملکوں میں کیسے رقص کرتی ہے کوئی برصغیر آ کر دیکھے جہاں کروڑوں بھوکے ننگے، ناخواندہ لوگ اپنے جیسوں کو چن لیتے ہیں، یہ طے ہے کہ جمہوریت کا پروسس ان ملکوں کے لئے مفید ہے، ووٹر بھی خوشحال اور خواندہ ہے،بھرے پیٹ کے ساتھ سوچ سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، قیمے والے نان اور بریانی کے ڈبے پر ووٹ دینا اس کی مجبوری نہیں جہاں اس نے اپنے مڈل پاس بیٹے کو درجہ چہارم کا ملازم نہیں رکھوانا، اپنا تو یہ ہے کہ پنجاب کے کلچر کا حصہ ”پٹواری کا منڈا“ ہے جس کا تذکرہ فلمی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہاں ابھی تک ڈی ایس کو ”اوئے ڈپٹی“ کہتے ہیں یہاں تھانیدار سے زیادہ تھانیدارنی کا محلے پہ رعب ہوتا ہے۔ یہاں کا ذہن اس لئے آزاد نہیں کہ سفارشی کلچر خالی پیٹ خوشامد اور غلامی پر اکساتا ہے ہم جو so called پڑھے لکھے ہیں اپنے موقف میں آزاد نہیں، فکر کے پرورش کے زمانوں ہی میں سر پر سماج، مذہب رواج بزرگ اور بااثر لوگوں کا رعب بیٹھ جاتا ہے، جبھی تو کہیں اس عمر میں آ کر یہ لکھا ہے
مجھے اپنے موقف کے بہت نزدیک رہنا ہے
بقایا عمر میں جو سوچتی ہوں وہ ہی کہنا ہے
حال یہ ہے کہ شادی سے پہلے والد کے زیراثر پی پی پی کو پسند کرتی تھی، مدمقابل تب مولوی تھے اور ہمیں ڈر یہ تھاکہ یہ ہمیں برقعہ اوڑھا دیں گے، بیل باٹم نہیں پہننے دیں گے، فیشن پر زد اٹھائیں گے، بھٹو صاحب کی موجودگی میں ماڈرن ازم کو کوئی تھریٹ نہیں تھی…… بعد ازاں مسلم لیگ ن کا ظہور ہوا، خیال بدلتا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ …… تو نہیں …… تیرا غم…… تیری جستجو بھی نہیں۔
بے دلی کی انتہا ہے ایسا لگتا ہے کوئی بھی آیا اس نے ملکی معیشت کی ”دیگ“ کو اپنی مرضی سے ”ورتانا“ ہے۔ چاول اتنے ہی ہیں دیگ میں ہر ایک کا برتنے کا ڈھنگ ہی محض مختلف ہے شاید گزرتا وقت اتنا سیاست دانوں کو سمجھا دے کہ لوگوں کو اب آپ کے ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھولنے میں دلچسپی نہیں ہے، آگے آنے والی نئی پود تو ہماری طرح فضول باتوں پر چسکے لینے والی بھی نہیں، یہ دو اور دوچار کو جانتی ہے، آپ لوگ بالکل ہی آؤٹ آف ڈیٹ ہو جائیں خود کو بدلیں ورنہ مذاق اڑے گا ……مزید…… برصغیر بادشاہت پسند خطہ ہے تو اس کا پس منظر بھی ہے، بادشاہ کہیں دولت چرا کر نہیں بھاگتا کہ اس کی وراثت کو ہی جانی ہوتی ہے، پانچ سال والے لنگوٹی کس کر آتے ہیں۔ طریقہ کار اپنا اپنا مگر جینز وہی ہیں، بددیانت راس ہیں نہ دیانت کے دعوے دار کہ ناک نیچے کرپشن ہو رہی ہو تو کیا دیانت دار اور کیا بددیانت…… اصل مسئلہ بیماری تو وہیں رہتا ہے۔
اب کے اسمبلی میں نئی فلم چلی، بائیکاٹ کے گولے سمیت ای وی ایم کا بل پاس ہو گیا اب بھلے چیلنج ہو جائے یا سینیٹ میں رکے اب دیکھیں اہل سیاست کا ”شغلی“ رتھ کہاں رکے۔ اگلا شوشہ کیا ہو اور اینکرز کی روزی کیسے پکی ہو؟
یاد آیا……
اب اس کا ارادہ کیا ہو گا
اب اگلا وعدہ کیا ہو گا
ہر بار یہی میں سوچتی تھی
اب اس سے زیادہ کیا ہو گا
مگر جناب!
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
وطن عزیز میں موضوعات کی کوئی کمی نہیں ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ اب تو یہ ہماری تفریح بن چکی ہے جو ملتا ہے پوچھتا ہے ”سناؤ کیہہ خبراں نیں“ یعنی خبر کے عذاب سے گھبرایا کوئی نہیں افسانہ، ناول، شاعری، داستان اب وہ لطف نہیں دیتے جتنی چٹ پٹی خبر……
بات انسانی نیت کی تھی، دھاندلی ذہن سے ہوتی ہے ہاتھوں سے نہیں اور اگر ہاتھ اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں تو ہاتھوں میں ڈھلنے والی مشین کیوں نہیں ہمیں اپنے خود غرضانہ جینز سے بددیانتی کو نوچ کر نکال ڈالنا ہو گا، تبھی بات بنے گی اور اگر ہم نے درست ہونے کا ارادہ نہ کیا تو کوئی مشین ہمیں ٹھیک نہ کر پائے گی۔ علاوہ ازیں حرفِ آخر کرپشن کرپشن ہوتی ہے چاہے حکمران خود کرے یا اس کی ناک کے نیچے ہو، کیچڑ میں کھڑے ہو کر دامن بچانا بہت مشکل ہے۔ ہم میں سے آدھے لوگ بھی کرپٹ ہیں تو ہم پارسائی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔