تحریک لبیک کا قصور کیا ہے؟

Mohsin Goraya, Pakistan, Lahore, Naibaat Newspaper, e-paper

 تحریک لبیک کے بانی علامہ خادم رضوی کا عرس گزشتہ روز منایا گیا جس میں ان کے ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی،یہ عقیدت مند اس لئے بھی فرحت و شاداں تھے کہ تحریک لبیک پاکستان کو ملک کے قومی دھارے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی اجازت مل چکی ہے اور اس کے امیر سعد رضوی بھی مقدمات سے خلاصی پا کر ان کے درمیان موجود تھے۔ میری معلومات کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے لوگ بڑے مثبت خیالات کے حامل محب وطن اور دین سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور عشق رسولؐ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاک و ہند میں سب سے پہلے دو قومی نظریے کی بات کی جو پاکستان کی بنیاد بنا۔ان کے ساتھ گزشتہ حکومت کے دور سے جاری ناروا سلوک نے مجھے ان کے بارے کچھ لکھنے پر مجبور کیا ہے۔تحریک لبیک آج ملک میں سواد اعظم اہلسنت مکتب فکر کی سب سے بڑی اور ووٹ لینے کے تناسب سے بھی ملک کی ایک بڑی اور پنجاب کی تیسری بڑی جماعت ہے،مگر پہلے اسے کالعدم قرار دیا گیا قیادت کو رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پابند سلاسل رکھا گیا،اس دوران وزراء کی جانب سے الزام تراشی،دشنام طرازی کا رویہ اختیار کیا گیا،وزیر اطلاعات فواد چودھری کو جانے کیا غلط فہمی ہوئی کہ ٹی ایل پی کے ڈانڈے انتہا پسندوں سے ملا دئیے،دہشت گرد قرار دیدیا،جبکہ وہ ایک محتاط شخصیت ہیں اور ہر بات سوچ سمجھ کر ذمہ داری سے کرتے ہیں،ریاست کا درجہ ایک ماں کا ہوتا ہے اور ماں اپنی اولاد میں فرق و امتیاز روا نہیں رکھتی،رعایا اولاد کی طرح ہوتی ہے اور ہر بچے کے خصائص مختلف ہوتے ہیں کوئی جلد اشتعال میں آجاتا ہے اور کوئی صبر و تحمل کے وصف سے آراستہ ہوتا ہے،مگر ماں اپنی اولاد میں ایسی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرتی جن کا وجود ہی نہ ہو۔
 اہلسنت بریلوی مکتب فکر مملکت خداداد میں بھاری اکثریت کا حامل ہے،اس مکتب فکر کے علماء،شیوخ اور کارکنوں نے بلا امتیاز قیام پاکستان کی حمائت کی اور قائد اعظم ؒکا ساتھ دیا،پیر سید جماعت علی شاہ، تحریک پاکستان کی قیادت میں ایک معتبر اور معزز نام ہیں،قیام پاکستان تک اس مکتب فکر نے اپنی الگ شناخت کیلئے کسی سیاسی جماعت کی بنیاد نہ رکھی،آزادی کے بعد چھوٹے چھوٹے دھڑے وجود میں آتے رہے مگر کارکنوں کی اکثریت نے مسلم لیگ سے ہمدردی برقرار رکھی، قبل ازیں 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی،مغلیہ سلطنت کی تحلیل اور برطانیہ کے ہندوستان میں نو آبادیاتی نظام کے رد عمل کے طور پر ایک مذہبی تحریک وجود میں آئی جس کے بانی دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی کے صوفی بزرگ امام احمد رضا خان تھے،عشق مصطفی میں ڈوبی اسی تحریک نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ دیا،یہ تحریک صوفیاء کی تعلیمات سے از حد متاثرتھی،تاہم قیام پاکستان کے بعد تک اس کی سیاسی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی،70ء کی دہائی میں علامہ شاہ احمد نورانی نے عاشقان مصطفیؐ کو جمعیت العلماء پاکستان کے نام سے سیاسی پلیٹ فارم فراہم کیا،لیکن مولانا عبدالستار نیازی کی علیحدگی اور اس کے بعد علامہ شاہ احمد نورانی کی وفات کے باعث یہ جماعت غیر مقبول ہو گئی،اس تحریک کے سیاست میں عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں صوفیاء حضرات سیاست و ریاست کے معاملات سے الگ تھلگ درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے،بادشاہوں اور حکمرانوں سے دور رہتے بلکہ ان سے ملنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔
صوفیاء سے نسبت کی وجہ سے یہ لوگ صلح جو،متحمل،محبت و مودت،کی صفات سے متصوف ہیں،انسان دوست شاعری بھی انہی کا وصف رہی،انہی تعلیمات سے متاثر ہو کر بابا گورونانک نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھی جس کے مقاصد میں مظلوم کی حمایت اور انسانیت کی خدمت تھی،شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد اہلسنت بریلوی مکتب فکر سیاسی نمائندگی سے محروم تھی،2018ء کے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل علامہ خادم حسین رضوی نے تحریک لبیک یا رسول اللہ ؐکی بنیاد رکھی اور پھر یہ تحریک افق پر گھٹا بن کر چھا گئی،لیکن ابتداء سے ہی متحرک اور فعال سیاسی جماعتوں نے اس تحریک کو اپنا دشمن سمجھا اور اس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا،علامہ خادم رضوی کی شخصیت پر اعتراضات اٹھائے گئے،مگر نواز دور میں انہوں نے گستاخانہ خاکوں کیخلاف اسلام آباد کے فیض آباد چوک پر دھرنا دیا تو حکمرانوں کو اس جماعت کی افرادی اور سیاسی قوت کا احساس ہوا،2018ء کے الیکشن میں اس جماعت نے توقع سے زیادہ ووٹ لے کر سیاسی جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی،دراصل علامہ خادم رضوی نے اکثریتی اہلسنت بریلوی مکتب فکر کی سیاسی بیداری،سٹریٹ پاوراور ووٹ بینک کو نئی طاقت اور سمت دی،اس مرتبہ اس مکتب فکر کے کارکنوں کے سیاسی کردار کو پختگی ملی یہی وجہ ہے کہ علامہ خادم رضوی کی بے وقت موت نے بھی اس تحریک کو کمزور نہیں ہونے دیا، علامہ خادم رضوی کا جنازہ دور حاضر کا شائد سب سے بڑا جنازہ تھا جو ان کی مقبولیت کا ثبوت ہے، ان کے بیٹے سعد رضوی نئے سربراہ تحریک لبیک کی کال پر کارکنوں کا اژدھام امڈآیااور پہلی مرتبہ حکومت نے اسلام آباد جانے والے راستوں پر خندقیں کھود کر کارکنوں کو روکنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئی۔
 اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے درود شریف پڑھنے والوں کو بارود بردار بناکر پیش کرنے کی بھی کوشش کی گئی مگر اس کے باوجود دوسری جانب سے اشتعال انگیزی دکھائی نہ دی،ہمارے سیاسی ماحول میں عام طور پر کسی تحریک کے بانی کی وفات کے بعد وہ تحریک تحلیل ہو جاتی ہے یا اختلافات کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے، مگر تحریک لبیک کی مجلس شوریٰ نے بانی تحریک کی وفات کے بعد سعد رضوی کو فوری طور پر سربراہ مقرر کر کے اپنی اولو العزمی کا ثبوت دیا۔ایک نظر علامہ خادم رضوی کی زندگی پر ڈالنا بھی سیاست کے طالب علموں کیلئے سود مند ہو گا،چند برس پہلے تک ان کے نام سے کوئی واقف نہ تھا،پھر حق کی آواز بلند کرنے پر ن لیگ حکومت نے ان کو محکمہ اوقاف کی مسجد کی امامت کے عہدے سے برطرف کر دیا، 2017ء میں انہوں نے تحریک لبیک کی بنیاد رکھی اور اسی سال توہین رسالت قوانین میں ترمیم کیخلاف اسلام آباد کی طرف ریلی اور فیض آباد میں دھرنے نے ان کی شہرت کو دوام بخشا،اسی سال این اے 120لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک لبیک نے سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
حکوت اور ریاست کو محب وطن جماعتوں کو زبردستی ریاست مخالف بنانے کی کوششوں کو ناکام کرنا ہوگا،یہ ہم سب کا ملک ہے،آج اس ملک میں مذہبی دینی سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے، تحریک لبیک کا قصور کیا ہے؟
 اس نے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے بجائے عشق رسول ؐ کو مہمیز دی جس کے نتیجے میں عاشقان مصطفی طویل مدت کے بعد سیاسی افق پر جلوہ گر ہیں جو خوش آئند ہے۔