ای وی ایم کا مخمصہ

Dr Ibrahim Mughal, Pakistan, Lahore, Naibaat Newspaper, e-paper

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک بڑی قانون سازی عمل میں آئی ہے،اور با ئی ہْک آر کرْوک،حکومت کامیاب قرار پائی ہے۔حا ل ہی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سمیت 33 بلز منظور کرلیے گئے، اپوزیشن کی جانب سے چیلنج کرنے پر ووٹنگ کرائی گئی۔ تحریک کے حق میں 221 اور مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں اس کو اپنی ایک بڑی کامیابی اور جیت قرار دے رہی ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس سارے عمل پر تنقید اور احتجاج کررہی ہیں۔ انتخابی اصلاحات کا عمل جمہوریت کے استحکام کا باعث بنتا ہے، لہٰذا اگر بلز کثرت رائے سے منظور ہوئے ہیں تو کلی طور پر ان کی مخالف بھی نہیں کی جاسکتی یا رد نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ قانون سازی میں جو سقم یا متنازع پہلو ہیں ان کی نشان دہی کرکے اصلاح کی کوشش کی جاسکتی ہے تاکہ تنازع طول نہ پکڑے او رملک میں جمہوریت کا عمل چلتا رہے۔ پہلے ہم اس بنیادی نقطے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا صرف الیکٹرانک ووٹ مشین کے استعمال سے پورا انتخابی عمل شفاف ہوجائے گا اور ہر ایک فرد یا سیاسی جماعت پولنگ کے عمل اور ووٹوں کی گنتی کے عمل سے مطمئن ہوجائے گی، جیسا کہ حکومت کے وزراء بیان کررہے ہیں۔ کیا صرف الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال سارے انتخابی عمل کو جادوئی طور پر غیرجانبدار اور شفاف بنادے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ملک کے فہمیدہ حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی، انتظامی اور تقرر و تبادلوں کے مکمل اختیارات نہیں مل جاتے، مسئلہ جوں کا توں رہے گا اور عام انتخابات کے عمل پر سوالیہ نشان لگتے رہیں گے۔ اختلافات، احتجاج کی فضا برقرار رہے گی۔ بھارت کی مثال لیجئے وہاں کا الیکشن کمیشن پوری طرح بااختیار ہے، اور وہ مسلسل سات دہائیوں سے کامیابی اور تندہی سے انتخابات منعقد کراتا چلا آرہا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کے ہاتھ، پاؤں آئینی ترمیم اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے باندھ دیئے جاتے ہیں۔ بھلے ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ایک بہتر آپشن ہو لیکن اس کے استعمال پر تمام سٹیک ہولڈرز کا متفق ہونا ضروری ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں الیکشن کمیشن پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام نے ای وی ایم کے استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 37 نکات تحریری شکل میں پارلیمانی امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتائے ہیں۔ بعض حلقے تشویش ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت دوسرے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر انتخابی اصلاحات لانا چاہ رہی ہے جو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی اس کو متنازع بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے عمل اور اس پر اعتراضات کو اگر ماہرین کی ٹیم کے سامنے رکھ کر ان کی رائے عوام کے سامنے رکھا جاتا تو کم از کم یہ معلوم ہوسکتا تھا کہ تکنیکی طور پر اس کے کیا فوائد و نقصانات ہیں اور یہ کس حد تک قابل اعتماد نظام ہے۔ اس میں وہ 
خامیاں جس کا تذکرہ ہورہا ہے، قابل اصلاح ہیں یا نہیں، اعتراضات درست ہیں یا غلط، اس بارے میں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے جس میں اس امر کا تعین مشکل ہے کہ کس کا موقف کس حد تک درست ہے اور کس کا کتنا غلط ہے۔ جہاں تک حزبِ اختلاف اور حکومت کے درمیان اس حوالے سے عدم اتفاق کا معاملہ ہے، ہمارے ہاں کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اتفاق رائے سے کوئی معاملہ طے ہو۔ سوائے ان معاملا ت کے جہاں قومی ادارے اس کی کوشش نہ کریں۔الیکٹرانک ووٹنگ کو اگر سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے تکنیکی پہلوؤں پر بات کی جائے تو یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے، بصورتِ دیگر یہ اونٹ کھڑا ہی رہے گا اور اس کی کوئی کل بھی سیدھی نظر نہیں آئے گی۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان اس معاملے پر اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب واپسی ناممکن لگتی ہے جبکہ حکومت اور الیکشن کمیشن بھی مدمقابل ہیں۔ بجائے اس کے کہ الیکشن کمیشن کے تحفظات کا تکنیکی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے اور حزبِ اختلاف کو قائل کیا جاتا لیکن حکومت نے سادہ اکثریت سے بل منظور کراکے اپنی من مانی کی ہے۔جس طرح ملکی سیاست میں تلخی بڑھتی جارہی ہے اور سیاسی اختلافات ذاتی اختلافات میں تبدیل ہورہے ہیں، تو ایسے حالات میں متفقہ انتخابی اصلاحات لے کر آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ حکومتی وزراء کی جانب سے الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے، اس کا احسن طریقہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کا نکتہ وار جواب دے دیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا، ایسا کرنے سے الزام تراشی سے بچا جاسکتا تھا۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ مشین کے ذریعے ووٹر کی شناخت خفیہ نہیں رہے گی اور نہ یہ بات خفیہ رہے گی کہ ووٹر نے ووٹ کس امیدوار کو دیا۔ اب اس کا جواب تو یہ ہونا چاہیے کہ کس طرح اس امر کا اہتمام کیا جائے گا کہ دونوں باتیں خفیہ رہ سکیں۔ اس کا یہ جواب تو نہیں بنتا کہ یہ مشین جعلی بیلٹ پیپر والوں کے لیے بری خبر ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے دوسرے اعتراضات کا جواب بھی ملنا چاہیے۔قومی اداروں کو متنازع بنانے کا عمل خطرناک ہے۔ عدلیہ اور پارلیمان تک اس سے محفوظ نہیں، سیاستدانوں کو تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اداروں کو اپنی منشا کے مطابق چلانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور یہی ذمہ داری اداروں کی بھی ہے کہ وہ اپنے آئینی اور قانونی مینڈیٹ کی حد کراس نہ کریں، اسی میں آئینی اداروں کا احترام پوشیدہ ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کا تقاضا ہیں لیکن ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنے اور ملک میں عوام کی رائے کے مطابق حکومت قائم ہو جس پر انگلی اُٹھانے کی نوبت نہ آئے۔اداروں کو ذاتی اور جماعتی مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کے بجائے حقیقی معنوں میں قومی مقاصد اور ملکی آئین کے تابع کرنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی نیّتوں کی تطہیر کرنا ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی ورکنگ کو محض انتخابی ذمہ داری نہیں بلکہ انتظامی ذمہ داری کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن میں بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل بیوروکریٹس کے ہاتھ دینا ضروری ہے کیونکہ انتخاب منعقد کرانا عدالتی نہیں انتظامی کام ہے۔ بھارت میں بھی سابق اعلیٰ افسران کو الیکشن کرانے کے لیے ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور یہی اس کے ارکان کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں الیکشن کمیشن کے پاس کلی اختیارات نہیں ہوتے۔ ڈپٹی کمشنر، پولیس، رینجرز سب حکومتی مشینری کے ماتحت ہوتے ہیں۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر جو کچھ ہوتا ہے، الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ دھاندلی کی شکایات تواتر سے وسیع پیمانے پر سامنے آتی ہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن انتظامی اختیارات سے محروم ادارہ ہے جبکہ حکومتی انتظامی ادارے طاقتور ہیں، جس پر حکومت بلاشبہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر واقعی ہم ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ یہ بھی سوچا جانا چاہیے کہ ایک ہی دن میں قومی اور صوبائی الیکشن کرانا، بڑا انتظامی چیلنج ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مرحلہ وار پولنگ کرائی جائے۔ الیکشن کمیشن کو آزادانہ کام کا موقع دے کر جمہوریت پر عوام، سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر آج لیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کی بات ہورہی ہے تو کل کلاں پورے نظام کو ہی بدلنے کی آوازیں بلند ہوسکتی ہیں۔حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ، الیکشن کمیشن کو ایک انتہائی باوقار آئینی ادارے کے طور پر قبول کرنے کے لیے دل بڑا کریں، اسی راستے سے الیکشن کمیشن کی توقیر بڑھ سکتی ہے اور جمہوریت کا پودا مفادات کے گملوں سے نکل کر زمین میں جڑیں پیوست کرکے تناور درخت بن سکے گا۔