جمہوریت پر شب خون کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ ای وی ایم مشینوں کو متعارف کرانا، بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ووٹ کا حق دینا یہ صرف تحریک انصاف کے منصوبے نہیں ہو سکتے۔ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دلا کر واپس سیاست کے دائرے میں لانا کیا محض انتظامی فیصلے ہیں۔ نہیں صاحب ایسا بالکل نہیں ہے یہ سب نئے نظام اور نئے سیاسی نقشے کی تیاری ہے اور اگر اس منصوبے کے تحت سب کچھ ہوا تو ملک میں جمہوریت نام کی کوئی شے باقی نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ کو ربر سٹمپ بنا کر کون فیصلے کر رہا ہے اس تماشے سے کب تک محظوظ ہوا جا سکتا ہے؟ کیا اس ملک میں کمزور اور طاقتور کے لیے الگ الگ نظام موجود نہیں ہے۔ بہت سے سیاسی نابالغ ایسے ہیں جو اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیا ان کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ایک ایسا ملک جہاں پر پوسٹل بیلٹ میں دھاندلی کی جاتی ہے وہاں پر ای وی ایم مشینوں کے ذریعے وو ٹ ڈالے جائیں گے اور بیرون ملک پاکستانی وہاں رہ کر اپنے اپنے حلقوں کے لیے ووٹ کریں گے، واہ صاحب واہ بڑی عرق ریزی سے سب کچھ کر رہے ہو۔
سوشل میڈیا پر بڑے دلچسپ تبصرے ہو رہے ہیں۔ ان میں ایک تبصرہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے بھی ہے۔ ظالم کہتا ہے کہ اس ملک میں ووٹ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ڈالے جائیں گے جہاں پر پٹرول پمپ پر ڈیجیٹل مشینوں سے لوگوں کو کم پٹرول دیا جاتا ہے۔اگر ان مشینوں نے بھی ایسا ہی کام کرنا ہے تو پھر نتائج کیا ہوں گے ابھی سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینے کی مخالفت کوئی نہیں کرے گا وہ اس ملک کے شہری ہیں اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بیرون ملک رہ کراپنے حلقے کے ووٹ کرنے سے بہتر تھا کہ ان کے لیے الگ سے نشستیں مخصوص کی جاتیں۔ پارلیمنٹ میں ان کی آواز ہوتی اور ان کے منتخب کردہ نمائندے ان کے حقوق اور مفادا ت کے لیے پارلیمنٹ میں آوازاٹھاتے۔ یہ کام کسی نے کرنے کی زحمت نہیں کی لیکن انہیں ان کے آبائی حلقے میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ان حالات میں وہ اپنے حقوق کا تحفظ کیونکر کریں گے وہ تو وہاں رہنے والوں ووٹرز کے نتائج پر اثر اندازہو نے کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔سیالکوٹ کے ایک حلقے میں انتخابات کے حوالے سے آنیو الا فیصلہ بھی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جس میں یہ ثابت ہوگیا کہ کس طرح انتظامیہ اور حکومتی عہدیداروں نے انتخابات کو چرانے کی کوشش کی۔ کیا ان حالات میں ان ووٹ مشینوں کی پروگرامنگ نہیں کی جا سکے گی۔اس ادارے کی رائے کو بھی سننے کی زحمت نہیں کی گئی جس کے ذمہ شفاف انتخابات کرانے کی ذمہ داری ہے۔ کیا حکومت کی اس بات کو قبول کیا جا سکتا ہے کہ وہ انتخابات پر اثر اندازہونے کی کوشش نہیں کرے گی جبکہ ایک حلقے میں اس کی مداخلت کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔الیکشن کمیشن خود اس کی مخالفت کر رہا ہے اور حکومت نتائج کو بروقت لانے کے لیے ان مشینوں کو استعمال کرنے کی منطق بیان کر رہی ہے۔
ایک حلقے کے انتخابی نتائج کو تو بروقت لانے کے لیے انتظامی مشنری کو استعمال کر لیا گیا تو کیا ووٹنگ بوتھ میں اپنی مرضی سے ان ووٹنگ مشینوں کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا؟ انتخابات کی شفافیت کو اس وقت مانا جائے گا جب اس نظام کو حکومت اوراپوزیشن دونوں تسلیم کریں گے لیکن یک طرفہ طور پر فیصلے کرنے سے کیونکر اس عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ یہاں سیاہ کو سفید کہا جا سکتا ہے، اکثریت کو بلڈوز کر کے اپنی مرضی کے نتائج لائے جاسکتے ہیں۔ سینٹ کے انتخابات میں کیا ہوا کیا یہ ایک شفاف جمہوری عمل تھا؟ بلوچستان میں جام کمال کی حکومت کو کس طرح ہٹایا گیااس پر بھی کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو نظام لانے کی تیاری ہو رہی ہے اس کا حال بھی اس چینی کی طرح کا ہے جو اس وقت مارکیٹ میں موجود ہے اورجسے کوئی بھی خوشی سے لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔کہنے کو چینی ہے مگر میٹھا نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ایسا جمہوری نظام اس ملک پرمسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ان حالات میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں علی احمد کرد کی 22کروڑ عوام اور جرنیل کی تقریر کو محض تقریر نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ اس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔پاکستان کے چیف جسٹس نے اسی کانفرنس میں کہا کہ ان کی ماتحت عدلیہ کسی کے کہنے پر فیصلے نہیں کر رہی ہے اور علی احمد کرد کو ان کے فیصلے کو پڑھنا چاہیے۔آج کی عدلیہ کیا کرتی ہے اور کس طرح انسانی حقو ق کی پامالیوں کو روکتی ہے اس کا فیصلہ تو تاریخ کا مورخ کرے گا مگر ماضی میں عدلیہ کا جو کردار رہا ہے وہ تابناک نہیں ہے اور اس کا اظہار خود اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے اسی کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران کیا، انہو ں نے ایک نہیں کئی کیسوں کا حوالے دیا کہ کس طرح عدلیہ نے انصاف کو داغدار کیا ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو ماضی میں ہونے والی غلطیوں کا احساس ہے اور اس کی تلافی اسی طرح ممکن ہے کہ بغیر کسی دباؤ آئین اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیصلے کیے جائیں اور انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جائے۔ یہ سب کچھ ہونے لگے تو بہت سے مسائل خود حل ہوجائیں گے۔
حکومت کی ہر بات کو چوں چرا کیے بغیر قبول نہیں کیا جا سکتا اور خاص طور پر وہ فیصلے جو براہ راست ملکی بقا سے جڑے ہوئے ہیں۔ووٹ کی حرمت اور لوگوں کو رائے کو نظر انداز کر کے ہم ایک سانحہ رونما کر چکے ہیں، سقوط ڈھاکہ دسمبر میں ہی ہوا تھا اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ ہم نے مشرقی پاکستانیو ں کی اکثریت کو بندوق کی نوک پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا اور آج وہ دنیا میں بنگلہ دیش کی شکل میں موجود ہے، خدا کے لیے نفرتوں کے جو بیج بوئے جارہے ہیں اس کی فصل کو تیار نہ ہونے دیں اور اس قسم کے حالات پیدا کریں کہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ ان کی آواز کو سنا بھی جائے گا، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق نہیں کھا سکے گا۔1973ء کے آئین کو متفقہ طورپر تیار کیا جا سکتا ہے تو آج بھی دوسرے اہم ترین فیصلوں میں حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب سب کو یاد ہے جب امریکہ کے اندر اس بات پر واویلا کیا گیا کہ صدارتی نتائج کو کمپیوٹر کے ذریعے تبدیل کیا گیا۔سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں پاکستانی میں آزادی صحافت، معلومات تک رسائی اور انسانی آزادیوں کی بات کی اور پاکستان کی ورلڈ فریڈم انڈیکس میں درجہ بندی کا ذکر کیا۔ ورلڈفریڈیم انڈیکس میں پاکستان کانمبر130واں ہے۔ سپریم کورٹ اورہائیکورٹ کے جج صاحبان سے مودبانہ گذارش یہی ہے کہ جناب انتظامیہ کی جانب سے انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں کانوٹس آپ نے لینا ہے، لوگوں کے آزادی رائے کے حق کو دلانے کا بندوبست آپ نے کرنا ہے اور عدلیہ اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دے تو کوئی حکومت غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلے کرنے کی اہل نہیں رہے گی۔ آئین کی تشریح کرنے کا اختیار بھی معزز عدلیہ کے پاس موجود ہے ان حالا ت میں پارلیمنٹ میں کوئی قانون آئین کی منشا کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہاں صرف ایک جرنیل اور22کروڑ عوام کی بات نہ کی جائے بلکہ ان لوگوں کی بات بھی کی جائے جو اس سارے نظام سے مستفیض ہوتے ہیں اور اس کے دست و بازو بن کر اس نظام کو آگے بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔یہ تماشا بھی اسی ملک میں ہوتا ہے کہ علی احمد کرد اس طرح جلسہ عام میں اس طرح کی باتیں کر کے آزاد گھومے گا اور اسی طرح کی بات کوئی دوسرا کرے گا تو وہ کئی مہینوں اور کئی سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جائے گا اور عدلیہ اس کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے سامنے نہیں آئے گا۔