گزشتہ آٹھ سال سے دن بہ دن منہ زورہورہے طوفان ِ مہنگائی نے عوام بالخصوص مڈل کلاس یا سفید پوش طبقے کی زندگی مشکل سے مشکل تر کر دی ہے۔مہنگائی نے وہ ریکارڈ بنائے کہ عزت سے دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا مشکل ہو گیا۔یہ کہنا علط نہیں ہو گا کہ گزشتہ چندسال میں آنے والاہر دن پاکستان کی مڈل کلاس اور سفید پوش عوام کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں رہا۔گاڑیوں والے اب موٹر سائیکل پر اور موٹر سائیکل سوارپیدل ہو گئے ہیں۔ماہانہ آمدن مہینے کی پندرہ تاریخ سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے، مہینے کے آخر تک جیب اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ زندگی بھاری لگتی ہے۔ ہم مڈل کلاس گھرانوں کے پاس مشکل وقت کے لیے کوئی اثاثے نہیں ہوتے۔شعبہِ صحت کی بات کی جائے تو کرونا کے بعدسفید پوش لوگ علاج معالجے سے بھی اجتناب کر رہے ہیں۔ہسپتال کے اخراجات اور ادویات کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے باعث ہم نے علاج سے کنارہ کشی کر لی ہے۔گزشتہ تین سال سے حکومت غریبوں میں ہیلتھ کارڈ بانٹ رہی ہے تاکہ غریب کو مشکل نا ہو مگر وہ مڈل کلاس لوگ کہاں جائیں جو نا تو ہیلتھ کارڈ کے مستحق ہیں اور جو نا ہی نئے نرخوں پر علاج کرانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔غریب کے پاس اب کارڈ ہے اور امیر تو پہلے ہی پاکستان سے علاج نہیں کرواتے اور اگر کرواتے بھی ہیں تو کسی مہنگے ترین نجی ہسپتال سے۔پاکستان کی ہر حکمران جماعت کی توجہ یا تو امیر پر ہوتی ہے یا غریب پرحالانکہ ملک میں امیر اور غریب کے علاوہ بھی ایک متوسط سفید پوش طبقہ موجود ہے۔جن کی اکثریت سرکاری وپرائیویٹ ملازمین اور چھوٹے کاروباری لوگ جن کے کاروبار کا حجم اتنا چھوٹا ہے کہ بامشکل عزت کی روٹی کما رہے ہیں۔جب بھی کوئی حکومت بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتی ہے ساتھ یہ اعلان کرتی ہے کہ اس کا اثر غریب پر نہیں پڑے گا۔امیر طبقے کو تو پروا ہی نہیں ہوتی کہ کس چیز کی قیمت کتنی
بڑھ گئی ہے لیکن سفید پوشی کے بھرم میں جی رہے لوگ جن کے گھر میں پچاس یونٹ سے زائد بجلی استعمال ہو رہی ہے وہ کیا کریں۔سفید پوش طبقے کی تقریباً 80 فیصد آبادی کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے۔بجلی کے بل،گھی اور پٹرول کی قیمتیں اب ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ سفید پوش لوگوں کے ہاں مہمان داری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ہمارے بچوں کے لیے حصولِ تعلیم پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ اور دیگر اشیائے ِ ضروریہ کی آئے روز بڑھتی قیمتوں سے ہم سفید پوش لوگوں کے بجٹ
اورزندگی پر کیا اورکتنا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ شاید ہی کسی کو ہو۔ یہاں آٹا بحران ختم ہوتا ہے تو گیس کا بحران شروع ہو جاتا ہے، گیس کا بحران سے نکلتے ہیں تو چینی اور پٹرول کا بحران سر اٹھائے ملتا ہے۔ ماڑے کو مارے شاہ مدار۔ ہم مڈل کلاس طبقے کہ ساتھ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ڈاکو بھی کمبخت ہم ہی کو نشانہ بناتے ہیں۔ اکثر ڈکیتیاں تنخواہ دار اور سفید پرش لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہیں۔ راہ چلتے بمشکل خریدا گیا چائنا کا موبائل چھین لیا جاتا ہے۔ قسطوں پر لی گئی گاڑی کے راتوں رات ٹائر غائب ہو جاتے ہیں۔ عمر بھر کمیٹیاں ڈال ڈال کر جوڑا جانے والا سامان ایک گھنٹے کی واردات میں لوٹ لیا جاتا ہے۔کبھی بائیک پر بیٹھے کسی ڈاکو نے کسی لینڈ کروزر یا ویگو کو کیوں نہیں لوٹا۔ کبھی کسی حکمران کے گھر ڈاکہ کیوں نہیں پڑتا۔ حکومت تو چپ ہے ہی مگر یہاں تو اپوزیشن، سوشل میڈیا اور سماجی تنظیمیں بھی چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا مڈل کلاس طبقہ غریب طبقے کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں چینی، آٹا، گھی، تعلیم، ادویات سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ اب 2022 کے بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں اپوزیشن نے ایک بار پھر مہنگائی کا چورن بیچنا ہے اور حکومت نے کرونا کا رونا، رونا ہے ایک بار پھر سے ہمیشہ کی طرح عوام کو سبز باغ دکھائے جائیں گے لیکن شاید تب تک بہت دیر ہوجائے۔جب ماں باپ اپنے بچے کے لیے دودھ نا خرید سکیں اور اولاد اپنے والدین کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھے توسفید پوش عوام کی تڑپ شاید ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر دیکھی جائے۔یہ طبقہ آخر کب تک اپنی محدود آمدنی کے ساتھ زندگی کی لامحدود مشکلوں کو پارکرے گا۔