اپنی محبت اور عقیدت کے مراکز پردیانتدارانہ نقد بڑا جان گسل کام ہوتا ہے۔یہ کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ آپ مولانا وحید الدین خان کی شہرہ آفاق کتاب ”تعبیر کی غلطی“ سے لگاسکتے ہیں۔ مولانا وحید الدین خان نے مولانا مودودی کے فکر پر نقد کیا تو اس کتاب کے صفحہ اول پر لکھا کہ اس کتاب کی اشاعت مجھ پر کتنی سخت ہے اس کا اندازہ آ پ اس سے کرسکتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے اس کی اشاعت کے بعد میں کسی ایسی جگہ چھپ جاؤں کہ کوئی شخص مجھے نہ دیکھے اورمیں اسی حال میں مر جاؤں۔مجمع العلوم الاسلامیہ پر نقد کے حوالے سے میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دوسری طرف اذیت کا دردناک پہلو یہ ہے کہ ایک صاحب قلم اگر اظہار مدعا نہ کرے تو گھٹن سے مرجائے۔ اسی تذبذب کی کیفیت میں یہ سطور لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔امید ہے اسے اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ میں جامعہ کا سابق طالب علم رہ چکا ہوں،نئے بورڈ کے قیام سے پہلے تک، میں مادر علمی کے تعلیمی پروجیکٹ اور تعلیمی تحریک سے متاثرتھا لیکن نئے بورڈ کے قیام کے بعد میں کوشش کے باوجود اس تاثر کو قائم نہیں رکھ سکا، وجوہا ت متعدد ہیں۔نئے بورڈ کے قیام کی بنیادی ضرورت مدارس کا موجودہ نصاب و نظام بتایا جاتا ہے، میں عرصے سے ان موضوعات پر لکھ رہاہوں، موضوع سے پرانی وابستگی کے باوجود میں نئے بورڈ کے قیام کی وجوہات سے مطمئن نہیں ہو سکا۔ اسی عدم اطمینان کی وجہ سے میرے ذہن میں کچھ سوالات، تحفظات اور خدشات ہیں جنہیں میں انتہائی ادب کے ساتھ اپنے اساتذہ کرام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اس نیت سے کہ اگر میرے یہ تحفظات او ر خدشات دور ہو جائیں اور مجھے شرح صدر ہو جائے تو میں بھی اس قافلے کے ہمرکاب ہو جاؤں۔ بصورت دیگر میں جہاں او ر جس جگہ کھڑا ہوں علی وجہ البصیرہ استقامت کے ساتھ اس جگہ کھڑا رہوں اور بڑوں پر اعتماد مزید پختہ ہو جائے۔ مجھے اپنے مادر علمی اور اس کے کارپردازوں کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر بسا اوقات اصلاح احوال اور وفور اخلاص میں انسان اجتہادی خطا کر بیٹھتا ہے، اس کی واضح مثال گزشتہ کچھ عرصے سے اختیار کیا جانے والا مولانا عبد العزیز کا طرز عمل ہے،میں نئے بورڈ کے قیام کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے پر مجبور ہوں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ اگر مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی ناگزیر تھی جس کو بنیاد بنا کر نیا بورڈ قائم کیا گیا، اس تبدیلی کی ضرورت پر اتفاق کربھی لیا جائے پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاق المدارس جو پچھلے کچھ عرصے سے اپنے نصاب ونظام میں مناسب حد تک تبدیلیاں کر چکا ہے انہیں اپنی فکر
اور تشویش سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا۔ اگر یہ بہتری لازم تھی اور من حیث المجموع مدارس کے نصاب و نظام میں بہتری کی گنجائش تھی تو اجتماعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے لیے کو شش کرنی چاہئے تھی۔ نئے بورڈ کی ضرورت و اہمیت پر تو بات ہوتی ہے مگر یہ پہلو تا حال تشنہ طلب ہے کہ ارباب وفاق کو اس حوالے سے قائل کیا گیا یا نہیں، اگر قائل کیا گیا تو دوسری طرف سے کیا جواب تھا۔اور اگر قائل کیے بغیر یہ قدم اٹھایا گیا تو اس کی کیا مجبوریاں تھیں۔ ایک اہم بات یہ کہ جامعۃ الرشید کے پلیٹ فارم اور جامعہ کے متعلقین کی طرف سے وقتاً فوقتاً حکومت و ریاست کے حق میں جوبیان بازی اور ذہن سازی ہوتی ہے اس کا تعلق حکومت سے ہے یا ریاست سے۔اگرچہ جامعہ کی طرف سے عموماً اسے ریاست کے حق کا عنوان دیا جاتا ہے اور اسی عنوان سے گفتگو کی جاتی ہے مگر بین السطوربات ایک خاص جماعت اورحکومت کی طرف چلی جاتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہم من حیث المجموع ریاست کو نوچ رہے ہیں اور ریاست کے حقوق کا شعور اجاگر کرنا اچھی بات ہے مگر یہ ذہن سازی کرتے وقت حکومت و ریاست کا فرق ملحوظ رکھنا بھی اہم ہے۔ حکومت اور ریاست دو الگ الگ ادارے ہیں اور جب آپ کا پلڑا ریاست کے بجائے حکومت کی طرف جھکتا ہے تو سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں، انگلیاں بھی اٹھتی ہیں اور آپ کی غیر جانبداری بھی مشکوک قرار پاتی ہے اورآخری نتیجے کے طور پر، آپ کی صفائیوں کے باوجود نئے بورڈ کے قیام کو بھی اسی خاص تناظر میں دیکھنے کی سپیس پیدا ہو جاتی ہے۔
جامعہ الرشید کے درودیوار کے اندر، نشریاتی ذرائع اورمجمع العلوم الاسلامیہ کے اجتماعات میں بھی یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ اکابر کی مزاج فہمی کی روشنی میں کیا جانے والا ناگزیر اقدام ہے میرے خیال میں یہ اکابر کے مزاج کی درست تفہیم نہیں ہے، اکابر کا جو مزاج اور خیال تھاکہ نظام تعلیم ایک ہونا چاہئے وہ یہ نہیں تھا کہ مدارس کو،جو تعلیمی ادارے کے ساتھ ایک خانقاہی ادارہ بھی ہیں،عصری اور سرکاری اداروں میں کھپانے والے علماء کا بیس کیمپ بنا دیا جائے۔ بلکہ ان کا منشا اور مزاج یہ تھا کہ ملک کا مجموعی قومی نظام تعلیم ایسا ہونا چاہئے جس میں دین و دنیا دونوں کو لے کر آگے بڑھا جائے۔یعنی وہ ریاست کے مجموعی نظام تعلیم کے ایک ہونے کے خواہاں تھے کیونکہ قوم کے لاکھوں کروڑں بچے ان ریاستی تعلیم گاہوں میں پروان چڑھتے ہیں جہاں لارڈ میکالے اور مغربی تصورات کی بنیاد پر نصاب اور نظام سازی کی جاتی ہے۔اکابر کا مزاج یہ نہیں تھا کہ عصری ادارے،سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں تو اپنے مزاج اورسیکولر خطوط پر باقی رہیں اور مدارس جو ہماری تہذیب کا آخری مورچہ اور تہذیبی شناخت کاآخری استعارہ ہیں، اپنی تعلیمی و خانقاہی روش چھوڑ کر خود کو ماڈریٹ ثابت کرنے اور سرکاری اداروں میں کھپنے والے علماء کی کھیپ تیار کرنے پر لگ جائیں۔ میرے خیال میں یہ اکابر کے مزاج کی سوء تفہیم ہے جس پر اپنے مطلب کا رنگ چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس اصولی بات کو بھی طے کر لیا جائے کہ اکابر کے مزاج کی درست تفہیم کیا ہے۔پانچویں اصولی بات یہ ہے کہ مدارس کے فضلاء کا عصری اداروں میں کھپنا اور وہاں نوکری حاصل کر لینا خوبی ہے یا خامی۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جو نئے بورڈ کے منتظمین کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے اتنے طلبا بری فوج، نیوی، فضائیہ،سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں کھپ گئے وغیرہ۔ کیا مدارس کے ذہین اور باصلاحیت طلباء کا واحد مصرف صرف یہی ہے کہ ان کی دینی و سماجی صلاحیتوں کو، دین اور امت کے بجائے محض ایک سرکاری نوکری اور اپنی ذات کی فکر تک محدود کر دیا جائے۔
عصری اور سرکاری اداروں میں کھپنے اور وہاں جا کر دین کا کام کرنے کا جو زعم ہے یہ بھی ضرورت سے زیادہ خوش فہمی پر مبنی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک اگر آپ اپنی ٹھیٹھ مولویانہ وضع قطع کے ساتھ میڈیا، یونیورسٹیز اور دیگر عصری اداروں میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کی وضع قطع کو دیکھ کر آپ کے بارے میں پہلے ہی ایک خاص پرسیپشن بنا لی جاتی ہے کہ یہ تو مولوی ہے اور اس نے ایسی ہی بات کرنی ہے اور آپ کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ دو، یہ مشاہدے کی بات ہے کہ کوئی عالم دین خواہ کتنا ہی متدین اورراست باز کیوں نہ ہو جب عصری اداروں اور ان کے ماحول میں جاتا ہے تو شروع کے برسوں میں نہ سہی چار پانچ سال کے بعد اتنا فرق تو ضرور پڑ جاتا ہے کہ خدمت دین اور اصلا ح امت کی فکر پس منظر میں چلی جاتی ہے اوراپنا گھر بار اور فکر معاش ابھر کر سامنے آ جاتے اور مقصود بن جاتے ہیں۔میرے خیال میں ارباب جامعہ الرشید کو اس موضوع پر ریسرچ کرانی چاہئے اور اس کے نتائج بھی سامنے لانے چاہئیں کہ اب تک ان کے کتنے فضلا عصری اداروں میں کھپے، کتنوں کے عقائد و نظریات اور وضع قطع میں تبدیلی آئی، ان اداروں میں ان کا کردار کیا رہا اور ان کے وہاں ہونے سے اداروں میں کیا مثبت تبدیلیاں آئیں۔ جامعۃ الرشید کے ساتھ اگر مجموعی طور پر مدارس کے فضلاء کا عصری اداروں میں کھپنے کا ڈیٹا بھی اکٹھا کر لیا جائے اورا س کا اینالسز کر لیا جائے تو میرے خیال میں نتائج انتہائی مایوس کن اور ہوش ربا ہوں گے۔ اگر کوئی اپنے طو ر پر اس موضوع پر کام کرنا چاہے تو اس پر ایم فل پی ایچ ڈی سطح کا مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے۔