ملتان کے جلسے میں متانت وسنجیدگی، تہذیب واخلاق اور شرم وحیا سے کوسوں دور نرگسیت کے شکار اِس 70 سالہ بوڑھے نے مریم نوازشریف کے بارے میں جو الفاظ کہے اُن الفاظ کے لیے گھٹیا بہت چھوٹا لفظ ہے۔ مریم نواز نے سرگودھا کے جلسے میں عمران خاں کو جذبہ وجنوں سے نہیں بلکہ انتہائی نفرت وحقارت سے فتنہ، جھوٹا اور چور کہا۔ یقیناََ عمران خاں کی تربیت میں جو کجی رہ گئی ہے، اُسی کا اظہار وہ کر رہا ہے۔ بَدقسمتی مگر یہ کہ اُس کے حواری بھی اُسی راہ پہ چل نکلے ہیں۔ سچ کہا ہے نجم ولی خاں نے ’’آپ صرف یہ بتا دیں کہ آپ عمران نیازی کے سپورٹر ہیں ۔۔۔ ہم آپ کے اخلاق، کردار، تربیت، ماحول اور خاندان کے بارے میں خود بخود آگاہ ہو جائیں گے‘‘۔ سلیم صافی نے لکھا ’’سوچتا ہوں اِس بیان کے بعد کوئی باغیرت، باحیا اور عزت دار مسلمان پاکستانی کیوںکر اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کو عمران خاں کے جلسے میں جانے کی اجازت دے گا‘‘۔ مطیع اللہ جان نے لکھا ’’خضاب لگا کر اور چہرے کی تھراپی کروا کر بندہ جب خود کو ہینڈسم سمجھنا شروع ہو جائے تو وہ تھڑے والی گفتگو کرکے خود کو کہتا ہے ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘۔ حامد میر نے لکھا ’’عمران خاں نے ملتان کے جلسے میں ایک خاتون سیاستدان کی سیاسی تنقید کے جواب میں جو کہا وہ کسی بااخلاق مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ اِس مذاق کے فوری بعد موصوف نے ایک حدیثِ نبوی سنانی شروع کر دی۔ یہ منافقت نہیں تو کیا ہے؟‘‘۔ ریحام خاں نے لکھا ’’مجھے اِس بات پر شدید شرمندگی ہے کہ میں کبھی ایسے گھٹیا آدمی سے منسلک تھی۔ ایک 70 سالہ بوڑھے کی بَدتہذیبی دیکھیں۔ نہ اپنے گھر کی عورت کی عزت نہ کسی اور کے گھر کی عورت کی عزت‘‘۔
عمران خاں کے اِس گھٹیا پَن پر ہزاروں ٹویٹ آتے چلے جا رہے ہیں جن میں سے کچھ ٹویٹ ایسے بھی ہیں جن میں نوازلیگ کو غیرتوں کا طعنہ دیتے ہوئے بدلہ لینے کے لیے اُکسایا گیا ہے۔ صرف نوازلیگ ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں نے اِس گھٹیا پَن پر اپنی نفرتوں کا اظہار تو ضرور کیا ہے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہی بہتر ہے کیونکہ حکومت سے ہاتھ دھونے کے بعد عمران خاں اور حواریوں کی سرتوڑ کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں ملک میں انارکی پھیلائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتحادی رَہنماؤں کو بگڑے ہوئے ناموں سے پکارتا چلا جا رہا ہے لیکن اتحادی پلٹ کر جواب دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ شاید اتحادی رَہنما یہی سوچ کر چُپ ہوں کہ
نہ ہاتھ اُٹھائے فلک گو ہمارے کینے سے
کسے دماغ کہ ہو دُوبدو کمینے سے
اپنی اِس سازش کو ناکام ہوتا دیکھ کر مایوسیوں میں گھرے عمران خاں نے اپنے آخری جلسے میں گھٹیاپَن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس دبنگ آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کی ہے جسے سُن کر بَنی گالہ لرز اُٹھتا ہے۔ کپتان کو اِس بات کی مطلق پرواہ نہیں کہ مریم نواز اُس باپ کی بیٹی ہے جس نے شوکت خان کینسر ہسپتال کی تعمیر کے لیے زمین منظور کی، اُس ماں کی اولاد ہے جو ہر ماہ شوکت خانم ہسپتال کو معقول رقم بھیجا کرتی تھی اور اُس دادا کی پوتی ہے جس کے بارے میں عمران خاں نے اقرار کیا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال پر کُل 70 کروڑ روپیہ صرف ہوا جس میں سے 50 کروڑ روپیہ میاں شریف مرحوم نے دیا۔ احسان فراموشی تو کپتان کی نَس نَس میں سمائی ہوئی ہے۔ اُس کی زہرناکی کا یہ عالم ہے کہ اُس نے اُسی کو ڈَسا جس نے اُس پر احسان کیا۔ ویسے تو یہ ثابت کرنے کے لیے بہت سے لوگ موجود ہیں لیکن فی الحال جہانگیر ترین، سردار عبد العلیم، اون چودھری اور محسن بیگ کی گواہی ہی کافی ہے۔ اِس لیے محترمہ مریم نواز کو یہ سوچ کر اُن گھٹیا الفاظ کو فراموش کر دینا چاہیے کہ ’’آوازِ سگاں کم نہ کُند رزقِ گدارا‘‘۔
سرگودھا میں ’’چارجڈ‘‘ مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نوازشریف نے کہا کہ عمران خاں ایک فتنے کا نام ہے اُسے روکنا چاہیے، پرورش نہیں کرنی چاہیے۔ اِس فتنے کو جس نے بھی دودھ پلایا، اُسی کو ڈَس لیا۔ عمران خاں وہ ناسور ہے جس کا دوسرا نام پاکستان کی تباہی ہے۔ خون سے لکھ کر دیتی ہوں کہ جب تک عمران جیسا فتنہ موجود ہے، پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ عمران خاں! اُس وقت سے ڈرو جب پنجاب کی ماؤں بیٹیوں کے ہاتھ تمہارے گریبان تک پہنچیں گے۔ مریم نواز نے اعلیٰ عدلیہ کو مخاطب کرکے کہا ’’شہبازشریف کے خلاف سوموٹو نوٹس لیا گیا، بڑی مہربانی، بشیر میمن کے الزام پر بھی سوموٹو نوٹس ہونا چاہیے، شہزاد اکبر جیسے قوم کے مجرم کے خلاف بھی عدالت کو ایک نوٹس لینا چاہیے، فارن فنڈنگ کیس کو 7 سال تک دبا کر رکھنے والے کے خلاف بھی سوموٹو نوٹس ہونا چاہیے‘‘۔ اُنہوں نے کہا عمران خاں نے آئین توڑا تو سپریم کورٹ رات 12 بجے کھلی۔ اُس دن سے یہ شخص سپریم کورٹ کو گالیاں دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ سے عرض کرنا چاہتی ہوں پاگل شخص کی خاطر عدلیہ کے ترازو کو جھکنے نہ دیں۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ پراسیکیوشن کے اداروں کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتی۔ عدالتِ عظمیٰ اب ایگزیکٹو کی ڈومین میں جا رہی ہے۔
اعلیٰ ترین معزز عدلیہ کی آرٹیکل 63-A پر دی گئی رائے ابھی ہضم نہیں ہو پا رہی تھی کہ چیف جسٹس صاحب کا اَزخود نوٹس سامنے آگیا۔ 7 اپریل کو اِسی معزز عدلیہ کے 5 رُکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا کہ منحرف ارکان کو نہ صرف ووٹ ڈالنے کا حق ہے بلکہ وہ ووٹ شمار بھی ہوگا۔ حیرت انگیز طور پر اَسی 5 رُکنی بنچ کے 3 ارکان نے 15 مئی کو یہ رائے دی کہ منحرف ارکان کو سرے سے ووٹ ڈالنے کا اختیار ہی نہیں جبکہ 2 معزز ارکان نے اِس رائے سے اختلاف کیا۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد فیصلہ ہے جس سے معزز ارکان نے محض ایک ماہ اور چند دن بعد خود ہی اختلاف کر دیا۔ نظرثانی کی اپیلوں میں تو خال خال ایسا دیکھا گیا ہے کہ فیصلہ بدل جائے لیکن یہاں تو کوئی نظر ثانی اپیل نہیں ہوئی اور فیصلہ بدل گیا۔ اَزخود نوٹس کے بارے میں عرض ہے کہ دنیا کی جمہوریتوں میں جو بھی برسرِاقتدار آتا ہے وہ اپنے پسندیدہ افراد کو منتخب کرتا ہے۔ عمران خاں نے اپنے دَورِ اقتدار میں بیوروکریسی کی اتنی اُتھل پُتھل کی کہ تاریخی نظیر بن گئی لیکن کوئی اَزخود نوٹس نہیں ہوا۔ چیف جسٹس آف پاکستان محترم عمرعطا بندیال نے فرمایا کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اُنہوں نے یقیناََ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے انٹرویوز بھی سُن رکھے ہوںگے جن میں وہ محترم جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے حوالے سے اُس وقت کے وزیرِاعظم عمران خاں کو موردِالزام ٹھہراتے ہیں۔ جواباََ حکومت کی جانب سے ہتکِ عزت کا کوئی دعویٰ بھی سامنے نہیں آیا لیکن کوئی اَزخود نوٹس بھی نہیں لیا گیا۔ شاید اِسی لیے موجودہ اَزخودنوٹس اتحادی جماعتوں کو ہضم نہیں ہورہا۔ کراچی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میں عدالت کا احترام کرتا ہوں لیکن سپریم کورٹ سے ایک ہی شکوہ ہے کہ آپ نے کس کے کہنے پر اَزخود نوٹس لیا۔ چیف ایگزیکٹو نے ایف آئی اے کے افسران کو تبدیل کیا، آپ نے سوموٹو کیوں لیا، کس کے کہنے پر لیا؟ کیا جلسے میں عمران خاں کی گفتگو پر اتنا بڑا اقدام لیا گیا؟۔ آپ آئیں، آپ حکومت کریں، آپ چیف ایگزیکٹو بن جائیں۔ عدلیہ کا اپنا کام ہے حکومت کا اپنا کام۔ آپ اُن لوگوں سے ڈرتے ہیں، یہ مخلوق عدالت کے سامنے کھڑی ہو گئی تو کیا کریں گے، عدالت آزادی کے ساتھ فیصلے کرے‘‘۔ دست بستہ عرض ہے کہ ہمیں اپنی عدلیہ پر اعتماد بھی ہے اور احترام بھی لیکن بدقسمتی سے ہماری تاریخِ عدل کبھی لائقِ تحسین نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ عالم نے عدل کے معاملے میں ہمیں 124 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ استدعا ہے کہ محترم چیف جسٹس صاحب کچھ ایسا کر جائیں کہ تاریخِ عدل پر لگا یہ داغ دُھل جائے۔