یہ جمہوری نظام نہیں بلکہ جمہور کا تماشا ہے۔ جس کے پاس بھی اختیار ہے وہ اس کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون پاکستان پر ہی فٹ ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو جنہوں نے چیک اینڈ بیلنس کرنا ہے وہ خود اس کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آج سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی باتیں یاد آ رہی ہیں جو انہوں نے مرنے سے پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں کی تھیں کہ جج کس طرح فیصلے کرتے ہیں۔ فوجی آمریت میں تو ہر چیز جائز ہو جاتی ہے اور آئین اور قانون کو لپیٹ کر الماری میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ تماشا اس وقت بھی جاری ہے۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو بے دست و پا کر دیا گیا ہے اور اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانے کے لیے منصوبہ بندی جاری ہے۔پردے کے پیچھے سے جو ہاتھ ڈوریاں ہلا رہے ہیں وہ بھی صاف نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان کو جس طرح کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے اس کا فیصلہ کس نے کیا ہے اور حکومت ایک عضو معطل کیوں نظر آ رہی ہے۔ وہ کون سے عناصر ہیں جو حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرو، الیکشن کا اعلان کرو اور گھر جاؤ۔ سبحان اللہ کیا خوب انتظام ہے۔ انکار ہوا تو سپریم کورٹ متحرک ہو گئی اور ایک ازخود نوٹس کے تحت اہم مقدمات میں تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ویسے انتہائی ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران خان کی حکومت کے آخری ہفتے میں حکومت نے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے اپنے تمام رہنماؤں کو بری کروا لیا تھا اور پراسیکیوشن نے ان مقدمات کو خارج کرنے میں پوری مدد فراہم کی تھی۔ اس وقت تو ہر طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ کہیں سے کوئی آواز نہ ابھری اور وہ کلین چٹ لے کر یہ جا وہ جا۔
یہ وہی عدالتیں ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے منتخب وزرا اعظم کو کھڑے کھڑے گھر بھیج دیا۔ نوازشریف پر مقدمہ کچھ اور تھا اور سزا کسی اور وجہ سے دے دی گئی۔ عدالتوں کا ماضی تابناک نہیں ہے اور مستقبل میں بھی اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ ن کے خلاف جس طرح مقدمات بنائے گئے اور جس طرح سنے گئے وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔ کیا شیخ رشید کو جتوانے کے لیے راتوں رات عدالت نہیں لگی تھی اور اپنے لاڈلے کا راستہ ہموار نہیں کیا گیا تھا۔ رانا ثنااللہ کے خلاف جو مقدمہ بنایا گیا وہ کس کے کہنے پر بنا اور پھر انہیں جیل میں رکھنے کے لیے عدالتوں میں کس حد تک معاونت کی اس کو بھی سب جانتے ہیں۔ جنرل مشرف نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ کس طرح انتخابات میں پولیٹکل انجینیرنگ کرتے تھے۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو عمران خان نے فوج کو پکارنا شروع کر دیا اور گالم گلوچ پر اتر آئے۔ فوج نے کہا کہ وہ نیوٹرل ہے تو اسے جانور سے تشبیہہ دی گئی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ حق اور باطل کی لڑائی میں نیوٹرل نہیں رہا جا سکتا۔ فوج کے ترجمان نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ وہ مداخلت نہیں کریں گے۔ فوج کے یہ اعلانات جمہور پسندوں کے لیے بہت حوصلہ افزا تھے کہ فوج اپنے آئینی کردار تک محدود ہو گئی ہے اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط ہونے کا موقع ملے گا۔
کچھ دنوں سے نظر آ رہا ہے کہ پرانا رومانس پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے پر کاٹنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ کچھ عناصر ہیں جو مخلوط حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
عمران خان اور شیخ رشید کے مطالبات کو پذیرائی بخشنے کی کوشش کون کر رہا ہے۔ فوج نیوٹرل ہونے کا اعلان کر چکی ہے تو وہ کون لوگ ہیں جو بقول شیخ رشید کے نگران وزیراعظم کے انٹرویوز کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر فوج ان کا منہ کیوں نہیں بند کر رہی جو فوج کو عوام میں بے توقیر کرنے کے لیے بیان بازی کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن بچھائے گئے ٹریپ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے واضح کر دیا ہے کہ اگر اس بات کی ضمانت دی جائے کہ انہیں ٹرم پوری کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ سخت فیصلے کر کے معیشت کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں ہو گا کہ وہ عمران خان کی حکومت کا سارا گند اپنے کھاتے میں ڈال کر رخصت ہو جائیں۔ پیپلزپارٹی ٹرم پوری کرنے کی بات کر رہی ہے لیکن مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نئے انتخابات کی طرف جانے میں دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ ایسے اشارے ملے ہیں جس کے بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے نادیدہ قوتیں متحرک ہو کر حکومت کو رخصت کر سکتی ہیں۔ شہباز شریف نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے جتنی سپورٹ لاڈلے کی ہوئی اگر ہماری 30 فیصد بھی ہوتی تو معیشت راکٹ کی طرح اوپر جاتی۔ ایوان صنعت و تجارت کراچی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ ہمارے مقتدر ادارے کی جانب سے جو تعاون لاڈلے کو ملا وہ ہماری کسی حکومت کو ملتا تو پاکستان راکٹ کی طرح اوپر جارہا ہوتا۔2018 سے 30 مارچ 2022 تک قرضوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا، اس وقت تو سیاسی افراتفری نہیں تھی، اس وقت لاڈلے اور لاڈلی حکومت کو ہمارے مقتدر ادارے نے وہ تعاون کیا جو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں نہ کسی کو ملا اور نہ آئندہ کسی کو ملے گا۔
سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کی جو تشریح کی ہے وہ آئین کی روح کے منافی ہے۔ عدم اعتماد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس پر اعتماد کیا گیا اب نہیں رہا اور اسے انحراف کہتے ہیں۔ منحرف رکن کی ایک سزا ہے اور وہ آئین میں درج ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ تو قرار دیا کہ منحرف رکن کا ووٹ کاؤنٹ نہیں ہو گا لیکن اس کی نا اہلی کتنی مدت کے لیے ہو گی اس کا فیصلہ کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کے لیے کہا گیا تو پھر اس کا فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کر سکتی ہے آئین کو دوبارہ لکھ نہیں سکتی۔ اسی طرح ایک ازخود نوٹس میں ایک تاثر کی بنیاد پر حکومت کے اختیارات پر پابندی عائد کر دی گئی۔ کیا یہ سب معمول کے تحت ہو رہا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز کو گھیر کر سزا دلانے کا بندوبست کیا جا رہا ہو۔ سچ پوچھیے تو یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے اور لوگ یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ ملک کے اندر پرانا کھیل ایک بار پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ عدم استحکام پیدا کیا جا رہا ہے۔ فوج کی ترجمانی کا فریضہ شیخ رشید نے سنبھال لیا ہے۔ فوج کو تقسیم کرنے کے سوچی سمجھی سازش ہو رہی ہے۔ فوج کو تقسیم کرنے کے لیے ایک سیاسی جماعت نے فوجی افسران کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا رکھے تھے کیا وہ لوگ بے نقاب نہیں ہونے چاہئیں۔ صدر عارف علوی اس نظام کو تلپٹ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ یہ سیاسی لڑائی گلی کوچوں میں لڑی جائے وہ ریاست کے صدر کی بجائے ایک پارٹی کے کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان حالات میں مسلم لیگ ن کے لیے یہی ایک راستہ باقی بچا ہے کہ وہ اس سارے منصوبے اور اس کے کرداروں کو بے نقاب کرے اور نئے انتخابات کا اعلان کر کے باہر آ جائے لیکن اس سے پہلے اس نظام کو درست رکھنے کے لیے جو درستگی کرنا ضروری ہے اس کو فوری کیا جائے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
لاتوں کے بھوت
07:27 AM, 22 May, 2022