اسلام آباد سے شہباز صاحب نے ایک سوال ارسال کیا ہے۔ یہ سوال بظاہر گستاخانہ معلوم ہوتا ہے لیکن اگر سمجھنے کی جستجو ہو، حقائق جاننے کی تمنا ہو تو سخت سے سخت سوال بھی نگاہِ عنایت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ یہ صاحب سوال، صاحبِ تعلق معلوم ہوتے ہیں، اس لیے ہم بلاخوف و خطر کہہ سکتے ہیں کہ ان کا سوال گستاخانہ نہیں بلکہ بے باکانہ ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، لہٰذا فطرت اور دینِ فطرت کو کسی بھی سوال سے عاجز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح فطرت میں انسانی تجسس کے ہر سوال کا جواب موجود ہے، اس طرح دینِ فطرت کے پاس بھی انسانی عقل میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا شافی و کافی جواب موجود ہے۔ اگر ہم کسی سوال سے برہم ہوتے ہیں تو ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے، کیا ہم فی الواقع دینِ فطرت پر ہیں یا کسی اور ہی ”دین“ اور اس کی تفہیم پر کاربند ہیں۔
شہباز صاحب اور ان کے دوستوں کا سوال یہ ہے ”کیا اسلام کی تفہیم و تشریح میں کوئی غلطی ہے؟ بحر الکاہل سے لے کر بحر اوقیانوس تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا میں کوئی بہت ہی ضروری قدر ناپید ہے؟ اقبال کے مسلمان کی اقدار کیوں ہمارے معاشروں میں دکھائی نہیں دیتیں؟ کیا اس کا سبب دین کی معذوری (معاذ اللہ) ہے یا اسکی آج تک کی تفہیم میں غلطی ہے؟ یا یہ کہ مسلمان ممالک میں آباد قوموں کی بے کرداری ہے؟“۔
خطبہ حجۃ الوداع سے واپسی پر ”الیوم اکلملت لکم دینکم“ کی آیت کے نزول کے ساتھ ہی دین مکمل ہو گیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس کی بنیادی تعلیم میں کوئی فرق نہیں، بس اس کی تفہیم میں کچھ ایسا فرق رونما ہوتا چلا گیا جس نے اہلِ اسلام میں تفرقہ پیدا کر دیا۔ جب تک کتاب کے ساتھ صاحبِ کتابؐ بنفسِ نفیس جلوہ افروز تھے، کسی کو کوئی الجھن نہ تھی، کہیں کوئی اختلاف موجود نہ تھا۔ جب کتاب اور صاحبِ کتابؐ میں فراق پیدا ہوا تو کتاب کی تفہیم میں فرق آنے لگا۔ چاہیے تھا کہ کتاب کے ساتھ شارح کتاب کو بھی اسی طرح من عن تسلیم کر لیا جاتا جس طرح صاحبِ کتابؐ کو مان لیا گیا تھا، لیکن شومئی قسمت یہاں اختلاف نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ کتاب کی تشریح حاملِ علم کتاب کے بجائے روایات کی مدد سے کی جانے لگی، اور روایات میں اختلاف تھا۔ راوی کے اخلاص میں اگرچہ فرق نہ تھا لیکن ہر راوی کی استعدادِ درایت میں فرق تھا، اور اس فرق کا ہونا عین فطری تھا۔ کلیہ تخلیق میں کلیہ تفضیل شامل ہے۔ انبیاء و رسل کے متعلق بھی بتایا گیا ”فضلنا بعضھم علی بعض……“ جب اس فطری کلیے کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو تعلیمات میں ترجیحات کا فرق رونما ہونے لگا۔ جب خلافت اور امامت دونوں ہی سے روگردانی کی گئی تو تفسیرِ دین ملوکیت زدہ ہو گئی۔ سیاسی حکمتِ عملی دین کی حکمت پر غالب آتی چلی گئی۔ تاریخ میں ہر بادشاہ نے اپنی سہولت کے لیے اپنے تنخواہ یافتہ علما و فقہا کی فوج ظفر موج تیار کر لی۔ یہ تو ممکن نہ تھا کہ دین کی تعلیمات میں ترمیم کی جاتی لیکن یہ انتظام ضرور کیا گیا کہ تعلیمات میں ترجیحات کا تعین اپنی ضرورت اور سہولت کے
مطابق کر دیا گیا۔ انتہائی اہم کو کم اہم اور کم اہم کو زیادہ اہمیت دے کر بیان کیا گیا۔ مثلاً عبادات کی اہمیت کو زیادہ اور اخلاقیات و معاملات کو کم اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا۔ صبح و شام یہ تو بتایا گیا کہ داڑھی اور مسواک کی لمبائی کتنی افضل ہے لیکن یہ حدیث بیان نہیں کی گئی کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے۔ مخصوص راتوں کو نوافل کی اہمیت تو جی بھر کے بیان کی گئی لیکن واعظِ شیریں بیاں نے یہ کم کم ہی بیان کیا کہ وہ شخص مسلمان نہیں جس کے ہاتھ اور زبان دوسرے محفوظ نہیں۔ یہ بیان کرنے کی بھی ضرورت کم ہی محسوس کی گئی کہ ملاوٹ دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں …… جس کے بارے میں سرکارِ دو عالمؐ فرما دیں کہ وہ ہم میں سے نہیں تو وہ شخص خود کو مسلمانوں کی صف میں کیسے شمار کر سکتا ہے۔ سر منبر خطیب یہ بیان کرنا بھی بھول گئے کہ مسلمان سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ قرن ہا قرن تعلیمات کے بیان میں یوں ترجیحات کے فرق نے ہمارے معاشرتی اور اخلاقی رویوں کو تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم تکبیرِ اولیٰ کے قضا ہونے پر تو پریشان ہوئے لیکن جھوٹ بولنے پر، کاروبار میں انسانوں کو دھوکا دینے پر ایک لمحے کے لیے بھی پشیمان نہ ہوئے۔ ہم جمعہ کی سنتوں پر بھرپور بیان جاری کرتے رہے لیکن بادشاہت کے غیر مسنون ہونے پر کبھی بیان جاری نہ کر سکے۔ ہم نے کبھی یہ سوال نہ اٹھایا کہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے بادشاہت کا طریق نہ اپنایا تھا۔ ہم نے طرزِ حکومت میں ملوکیت کو ٹھنڈے پیٹوں قبول کر لیا۔
حریتِ فکر اسلام کی اساس تھی، ہم نے اسے طاقِ نسیاں میں رکھ دیا۔ اسلام نے جو معاشرہ تخلیق کیا تھا اس میں حریتِ فکر کا یہ عالم تھا کہ ایک عام شہری خلیفہ وقت سے سرِ محفل یہ سوال کرتا ہے کہ ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی تھی، اور ایک چادر سے قمیض نہیں سل سکتی، تم نے مالِ غنیمت کی چادروں سے اپنے لیے قمیض کیسے بنا لی؟ یہ جرأتِ سوال آج ہم یورپ کے ایوانوں میں دیکھتے ہیں اور متعجب ہوتے ہیں کہ وہ لوگ باقی قوموں سے آگے کیسے بڑھ گئے؟ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور اپنے حکمرانوں کو قانون اور آئین سے تجاوز نہیں کرنے دیتے، انہوں نے ملوکیت کے جبر کو قبول نہیں کیا۔ مادی تحقیق و ترقی بھی ذہنی اور سیاسی آزادی سے مشروط ہے۔ ایک غلام ذہن، ایک محبوس سوچ سائنس کی لیبارٹری میں بھی تحقیق کرنے میں عاجز ہوتی ہے۔ تحقیق ایک اندازِ فکر ہے، اور ایک غلام ذہن کے پاس اس اندازِ فکر کا شعور نہیں ہوتا۔ غلام کا ذہن بس اپنے بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے پر مرکوز رہتا ہے، وہ تفکر اور تدبر کے جوہر سے محروم ہوتا ہے۔ ایک آزاد ذہن ہی جھوٹے خداؤں کی جھوٹی خدائی کا پردہ چاک کر سکتا ہے۔ ملوکیت میں موروثیت بغیر استحقاق کے تخت نشین ہو جاتی ہے اور یوں اوپر کی سطح سے میرٹ کی پامالی نچلی سطح تک سرایت کرتی چلی جاتی ہے۔ جہاں جمہوریت میں موروثیت کے جراثیم پائے جاتے ہیں، وہاں جمہوریت کے نام پر بھی دراصل ملوکیت ہی رائج ہوتی ہے۔
کربلا والوں نے ہمیں ملوکیت کے خلاف عَلم بلند کرنے کا راستہ دکھا دیا تھا۔ افسوس! ہم اہلِ کربلا کے ہمراہ چلنے کے بجائے اہلِ کوفہ کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جابر حکمرانوں نے امت کی گردن میں غلامی کا ایسا طوق ڈالا جس کے اثرات افکار و کردار کی صورت میں آج تک محسوس ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالی پر مسلمان ممالک اس طرح سراپا احتجاج نہیں ہوتے جس طرح مغربی ممالک دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ یہاں مجموعی رویوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ افکار ہی اعمال کا پیش خیمہ ہوتے اور اعمال کا تسلسل کردار بناتا ہے۔ کردار میں خلل دراصل افکار میں اختلال کے باعث رونما ہوتا ہے۔
رسوا جو مسلمان زمانے میں ہوا ہے
محجوبِ علیؓ بوذر و سلمانِ مدینہ
سوال یہ ہے کہ بنیادی انسانی و اخلاقی اقدار سے بے بہرہ ہو کر ہم اس دین سے بہرہ ور ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں جس کا بنیادی جوہر ہی اخلاق اور اخلاص ہے؟ ہم یہ بھول گئے کہ ایک اچھا انسان ہی اچھا مسلمان بنتا ہے۔ جب تک ہم ایک اچھا انسان بننے کی تگ و دو نہیں کرتے، اس وقت تک عبادات اور ظاہری وضع قطع کے زعم میں خود کو اچھا مسلمان سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔ اسلام اچھا دین ہے…… اچھے لوگوں کو خوب فائدہ دیتا ہے…… سچا دین ہے، سچوں کو فائدہ دے گا!!
امید ہے اسلام آباد کے شہباز اس نتیجے پر پہنچ گئے ہوں گے کہ بحرِ اقیانوس سے بحرالکاہل تک پھیلے ہوئے مسلمانوں میں جس بنیادی جوہر کا فقدان ہے، وہ حریتِ فکر ہے…… جوہرِ اخلاق اور کردار ہے!! ان کی فکر آزاد نہیں، یہ اپنے سیاسی اور کاروباری مفاد میں قید ہیں …… یہ انسانی جان اور مال کی حرمت کے قائل نہیں …… حالانکہ انہیں چودہ سو برس قبل بتا دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان کی جان اور مال کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ یہ نسلی اور لسانی تعصب کا شکار ہیں …… حالانکہ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ یہ تجارت میں مال بنانے اور بٹورنے کے قائل ہیں لیکن دیانت اور امانت کے جوہر سے محروم ہیں …… حالانکہ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ ایک ایمان دار تاجر قیامت کے روز انبیاء و شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ یہ عبادت کے قائل ہیں لیکن خدمت کے قائل نہیں یہ عبادت کے زور پر میزانِ عمل بھاری کرنے کے زعم میں ہیں لیکن تکریمِ انسانی کے قائل نہیں …… تکریمِ انسانی کا نام اخلاق ہے…… حالانکہ انہیں اخلاق کے متعلق بتا دیا گیا تھا کی بروزِ حشر میزان میں سب سے بھاری چیز اخلاق ہو گی…… تو محترم از جان شہباز! اللہ تمہاری فکر کے شہباز کو وسعتِ پرواز عطا کرے…… اسلام اور اسلام کے پیغام میں فرق نہیں، بس مسلمان میں فرق آ چکا ہے……!! اقبالؒ جس مسلمان کی تلاش کر رہا ہے، وہ روحِ محمدؐ سے وفا کرتا ہے۔ روحِ محمدؐ کس پر مہربان ہو گی؟ …… روحِ محمدؐ اس امتی پر مہربان ہو گی جس کا وجود اخلاقِ محمدیؐ کی خوشبو سے معطر ہو گا…… آپؐ کو خوشبو بہت پسند تھی!! عود سے بڑھ کر وجود سے عود کر آنے والی خوشبو کردار کی خوشبو ہوتی ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں