مبینہ اکلوتی خوبی (کرپٹ نہ ہونے) کے مالک وزیراعظم میں جہاں اوربہت سی خوبیاں ہیں، جویقیناً باقی سیاستدانوں کے مقابلے میں کم ہی ہیں، وہاں ایک خرابی اُن میں یہ بھی ہے پیٹ کے جتنے ہلکے وہ ہیں شایدہی اور کوئی سیاستدان ہوگا، …ایک ذاتی تعلق کی بناء پر اُن کی اِس خرابی کا تھوڑا بہت اندازہ ہمیں ضرورتھا، مگر انتہا یہ ہے جب ایک جلسے میں سرِ عام اُنہوں نے یہ کہہ دیا ’’جنرل باجوہ مجھے کہتے ہیں، دیکھو عمران آپ مولانا فضل الرحمان کو ’’ڈیزل‘‘ نہ کہا کرو ‘‘…کوئی حکمران چھوٹے سے اِس راز کی حفاظت نہیں کرسکا آپ اُس سے کیسے یہ توقع کرسکتے ہیں قومی رازوں کی حفاظت وہ کرسکے گا ؟… البتہ ہم اُن کے شکرگزار ہیں جلسے میں یہ راز افشاء کرنے کے بعد کہ ’’جنرل باجوہ نے اُنہیں مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل کہنے سے منع کیاہے‘‘، جنرل صاحب کا یہ حکم اُنہوں نے مان لیا ہے، اُنہوں نے جلسوں میں مولانا کو ڈیزل کہنا چھوڑدیا ہے، البتہ مولانا کے ذکر پر جلسے کے حاضرین کی طرف سے جب ڈیزل ڈیزل کی آوازیں آتی ہیں، ایک تووہ لوگوں کو منع نہیں کرتے، دوسرے اُن کے چہرے کے تاثرات بتارہے ہوتے ہیں وہ اس پر اتنے خوش ہورہے ہیں جیسے کوئی بچہ کوئی کھلونا لے کر خوش ہوجاتا ہے ،…اصل حیرت مجھے اُس وقت ہوتی ہے جب اپنی تقریروں میں ریاست مدینہ کی بات کرتے کرتے اچانک وہ اپنے سیاسی مخالفین کے نام بگاڑنے لگتے ہیں، …پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے خواہشمند اور دعویدار کو شاید معلوم نہیں ہمارے دین میں نام بگاڑنے کو کس قدر بُرا سمجھا گیا، ہم جیسے گناہ گاروں کو بھی ایسا کرتے ہوئے ضمیر کی شدید ملامت کا سامنا کرنا پڑتاہے، ’’فرشتہ سیرت وزیراعظم‘‘ جب یہ کرتا ہے ہم اُس کی خدمت میں اتنی گزارش تو کرہی سکتے ہیں اپنے کرتوت بدل لے یاریاست مدینہ کی بات کرنا چھوڑ دے، … ایک آیت مبارکہ کا حوالہ وہ اِن دِنوں اپنی ہرتقریر میں بہت دے رہے ہیں، کاش قرآن پاک کی یہ آیت بھی اُنہوں نے پڑھی ہوتی جس کاترجمہ ہے ’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کیا کرو، نہ ایک دوسرے کو بُرے القابات سے یاد کرو، جو لوگ اس روش سے باز نہ آئے وہ ظالم ہیں ‘‘…یہ توکوئی بات نہ ہوئی کسی آیت مبارکہ کو وہ اپنے حق میں کیش کروالیں اور کسی کو صرف اِس لیے نظرانداز کردیں کہ وہ اُن کے اعمال کے مطابق نہیں، کاش ہمارے محترم وزیراعظم اپنے کچھ اعمال قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں ترک کردیں نہ کہ وہ جنرل باجوہ کے حکم پر ترک کریں، … ہم پھر بھی اُن کے شکرگزار ہیں چلیں کسی کی بات تو اُنہوں نے مانی، شاید جنرل باجوہ کی کچھ اور باتیں بھی اب وہ مان لیں۔ اور اُس کے بعد شاید عوام کی کچھ باتیں بھی وہ مان لیں، … ویسے حالیہ جلسوں میں اُن کا لب ولہجہ اچھا خاصا بدلہ ہوا ہے، اس لب ولہجے میں پہلے جیسی گرج اب نہیں رہی، وہ کچھ تھکے تھکے محسوس ہوتے ہیں، ’’اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں ‘‘… ہم آج بھی پوری نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہیں باقی تقریباً تمام سیاستدانوں سے ہزار درجے وہ بہترہیں ، کم ازکم اپنے اقتدارکو ذاتی طورپر لُوٹ مار کا ذریعہ اُنہوں نے نہیں بنایا، یہ بھی درست ہے وہ اِس ملک کو ڈاکو سیاستدانوں سے نجات دلانا چاہتے تھے، مگر اُن کی کچھ غلطیاں، کچھ بلنڈرز، کچھ کوتاہیاں، اُن کی کچھ ضِدوں اور جھوٹی انائوں نے یہ کام نہیں ہونے دیا، دوران اقتدار جہاں اُن کی کچھ اچھائیاں ہمیں یاد رہیں گی وہاں یہ بھی یادرہے گا اُن کی کچھ غلطیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے آج یہ ملک دوبارہ اُنہیں ڈاکو سیاستدانوں کے ہاتھوں میں جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے جن سے اُنہوں نے مستقل طورپر ہمیں نجات دلانی تھی،… یہ درست ہے اُن کے مخالف سیاستدان بدزبانیوں میں اپنی مثال آپ تھے، اصل ’’تبدیلی‘‘ یہ ہوتی بدزبانی کے اِس کلچر کا خاتمہ کیا جاتا۔ افسوس اس معاملے میں بھی ’’تبدیلی‘‘ ،’’تباہی‘‘ بن گئی، گالم گلوچ اور عدم برداشت کو جتنا فروغ گزشتہ چاربرسوں میں مِلا گزشتہ چالیس برسوں کے مقابلے میں وہ شاید زیادہ ہی ہوگا۔ وزیراعظم کے ایک ترجمان نے تو حد ہی مُکا دی۔ اُنہوں نے اپنی جماعت کے ایک سابقہ وزیر (غیر مسلم) کو ایک ٹی وی شو میں ایک ایسی گالی دی جس کی توقع ہم بازار حُسن کے جدی پُشتی کسی رہائشی سے بھی نہیں کرسکتے، … یہ گالی وہ بار بار دیتے رہے، جیسے وہ اپنا اصلی نام بتارہے ہوں، اِس غلیظ حرکت پر ممکن ہے ’’غلام‘‘ کو ’’بادشاہ‘‘ سے شاباش مِلی ہو، مگر مہذب لوگوں پر جوگزری اُس کا اندازہ اُس شخص کو کیسے ہوسکتا ہے جسے لایا ہی ایسے غلیظ کاموں کے لیے گیا تھا ؟خان صاحب کا اقتدار ختم ہوتے ہی وہ یقیناً وہیں چلے جائے گا جہاں سے آیا ہے، مگر خان صاحب سے چونکہ زیادہ اُمید یہی ہے یہیں رہنا ہے تو اُس ترجمان کی ساری خرابیوں ساری زیادتیوں کا خمیازہ اُنہیں ہی بھگتنا پڑے گا، یا اُن کی جماعت کو بھگتنا پڑے گا، جو پہلے ہی کافی حدتک بھگت چکی ہے، … پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا سچاجذبہ اگر اُن میں ہوتا اپنے اِس ’’گالی باز‘‘ ترجمان کو فوری طورپر وہ فارغ کردیتے، … زیادہ دُکھ اِس بات کا ہے ایک ’’مسلمان‘‘ ترجمان ، جسے اُس کا دین برداشت اور رواداری کا درس دیتا ہے وہ تو بظاہر گالی دے رہا تھا اور ایک’’غیر مسلم‘‘ اُس کے جواب میں بڑے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کررہا تھا، … کیا پی ٹی آئی یا خان صاحب کا یہ ذاتی ’’ مسلمان ترجمان‘‘ یہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا یا دنیا کو یہ پیغام دینا چاہ رہا تھا کہ اخلاقیات کے لحاظ سے ایک غیر مسلم اُس سے ہزار درجے بہتر ہے؟؟؟، دنیا کو یہ پیغام دینے میں وہ کامیاب ہوگیا، اُسے مبارک ہو جس مشن کے لیے اُسے لایا گیا تھا بڑی کامیابیوں کے ساتھ اُس پر وہ پورا اُتررہا ہے…ایک غیر مسلم سابق وزیر پر اُس نے الزام لگایا کہ وہ اُن کے پاس کینسر کی جعلی دوائی بیچنے کا کیس لے کر آیا تھا …پہلا سوال یہ ہے وہ یہ کیس وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے بجائے حکومت پنجاب کے اُس وقت ’’گالمی ترجمان کے پاس کیوں لے کر گیا تھا؟ دوسرا سوال یہ کہ ڈاکٹر رمیش کمار کی اس ناپاک حرکت پر اُس کے خلاف کیا انکوائری یا کارروائی ہوئی تھی ؟ کیا ’’پنجاب حکومت کا اُس وقت کا یہ گالمی ترجمان پہ معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لایا ؟ ۔ اگر کسی انکوائری کے نتیجے میں یہ بات درست ثابت ہوئی تو پھر انسانی جانوں سے کھیلنے کی خواہش رکھنے والے اس رُکن قومی اسمبلی کو کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی ؟… اب جبکہ وہ حکمران مخالف کیمپ میں جا بیٹھا ہے تو اس کے خلاف بازاری زبان استعمال کرنا شروع کردی گئی ہے ۔…حد ہے یار ویسے!!