انور مسعود نے کلیاتِ قطعات کے دیباچے میں کس قدر درست لکھا ہے کہ اس دَور میں سماعتیں اچھی خبر سننے کو ترس گئی ہیں اور یہ کہ اس عہدِ ستم میں اُنھوں نے جو کڑوی سانسیں لی ہیں یہ قطعات انھی کا احوال ہیں۔ ’’کڑوی سانسوں‘‘ کے مرکب توصیفی کا استعمال بڑا معنی خیز ہے۔ یہ سانسیں نہ صرف ہمارے عہد کی سیاسی معاشرتی اور روحانی آلودگیوں کا تحفہ ہیں بلکہ فضائی اور صوتی آلودگیوں کا ثمرِ تلخ بھی ہیں۔ انور مسعود نے ان کڑواہٹوں اور تلخیوں کا ذکر نہایت لطیف پیرائے میں کیا ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ ان کی تیز بیں نگاہ سے کوئی سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی ناانصافی اور ناہمواری اوجھل نہیں رہی جس کا ذکر انھوں نے اپنے مخصوص ظریفانہ پیرائے میں نہ کیا ہو۔ ہاں کہیں کہیں ان کے لہجے میں تلخی کا عنصر زیادہ کاٹ دار ہو گیا ہے۔
ہمارے عہد میں مشین جس تیزی سے انسانی معاشرے پر حاوی ہوتی جا رہی ہے اور اُس کے نتیجے میں جس قدر غیر انسانی اور مہلک صورتِ حال جنم لے رہی ہے، انور مسعود کو اس کا بڑا تیکھا شعور حاصل ہے۔ مشین کی اس ہمہ گیر حاکمیت کے نتیجے میں درخت نہایت تیزی سے کٹ رہے ہیں، عالمی حرارت بڑھ رہی ہے، فضا آلودہ تر ہوتی جا رہی ہے، فطری ماحول برباد ہو رہا ہے، آبی آلودگیاں آبی مخلوقات کو تباہی اور ہلاکت بانٹ رہی ہیں، ان سب کا المناک بیان انور مسعود کے قطعات میں بڑی تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سڑکیں پھیلتی ہیں تو سبزہ سمٹتا ہے، سبزہ سمٹنے سے سانسیں بوجھل اور سماعتیں گرانبار ہو جاتی ہیں اور نتیجتاً زندگیاں بیزار! ذرا اس صورتِ حال کی سنگینی ملاحظہ کریں: یہ اک طوفان ہے آلودگی کا / یہ حملہ بے تحاشا تند بھی ہے / یہ ہے اسموگ کی یلغار اس میں / دھواں بھی، گرد بھی ہے، دھند بھی ہے۔ ’’آلودگی‘‘ کے زیر عنوان ایک اور قطعہ دیکھیے: نتائج اس کے ہیں سنگین کتنے / یہ بحران آزمائش کی گھڑی ہے / ہے ماحول اتنا آلودہ کہ دنیا / تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ’’نو بہ نو‘‘ کے عنوان کے تحت انسان کے ہاتھوں سمندر پہ لائی ہوئی تباہی کا طنز آمیز پیرایہ دیکھیے: حضرتِ انساں ہوں میں اور ہوں بہت جدت پسند / نو بہ نو تازہ بہ تازہ تجربے میرا ہدف / خشکیوں پر میں بہت پھیلا چکا آلودگی / اب مری ساری توجہ ہے سمندر کی طرف!
انور مسعود کی نگاہ صوتی آلودگی سے بھی نہیں چوکتی۔ دیکھیے کتنے لطیف انداز میں رکشوں کی شور آفرینی کا ذکر کرتے ہیں: لاریوں کے شریر سے چوزے / یہ جو رکشے دکھائی دیتے ہیں / ناک میں دم ہے ان کے ہاتھوں سے / ایسی ایسی دہائی دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ شور آفرینی صرف لاریوں کے شریر چوزوں تک محدود نہیں رہی اس میں مولوی صاحبان کے لاؤڈ اسپیکروں کی شبانہ روز اجتماعی سماعت شکنی نے بھی خوب اپنا حصہ ڈالا ہے۔ میں نے عرصہ پہلے اس ضمن میں ایک نظم ’’در مدح لاؤڈ اسپیکر‘‘ لکھ رکھی ہے جس کے صرف چند شعر قارئین کرام کی نذر ہیں: اک جلالی مولوی صاحب کی تھی تقریر خوب / حاملِ برق و شرر، آتش زنِ شہرِ قلوب / کہہ رہے تھے کل کہ ہیں ہم حاکمانِ بحر و بر / ہے ہماری حشر خیز آواز کیا جادو اثر / بحر کے پانی میں اک ہلچل مچا دیتے ہیں ہم / قبر میں لیٹے ہوئے مردے جگا دیتے ہیں ہم / کھولتا ہے لاؤڈ اسپیکر پر پرواز جب / کانپ اٹھتے ہیں در و دیوارِ کاخ و بیت سب / نیند کے ماتوں پہ مثل برق گرتا ہے یہ بم / اور دم بھر میں سکوں کیشوں کی سب راحت بھسم! انور مسعود کے اسی موضوع پر دو لطیف قطعات ملاحظہ ہوں۔ قطعوں کے عنوان بھی قابلِ داد ہیں: ’’زُبدۃ الخطباء‘‘ ، ’’وما علینا الا البلاغ‘‘ ۔ ’’زبدۃ الخطبا‘‘: در پئے تقریر ہے اک واعظِ گنبد گلُو / لاؤڈ اسپیکر بھی اس کے سامنے موجود ہے / نیند کا طالب ہے اک بیمار بھی ہمسائے میں / ’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘۔ یہ قطعہ کئی پہلوؤں سے قابل داد ہے۔ ’’واعظ گنبد گلو‘‘ کی ترکیب بے مثل ہے۔ واعظ کی تیز، تیکھی، جوش سے بار دار اور گونجدار آواز سے پھولے ہوئے گلے
کے لیے اس سے بہتر تشبیہ ممکن نہیں۔ اس گونجدار آواز کی مزید قیامت آفرینی کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی رفاقت بھی موجود ہے! اس سب اہتمام کو مزید گہرا تاثر اقبال کے اس مصرعے نے عطا کیا جسے انور مسعود نے تضمین کیا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی شاید بے موقع نہ ہو گا کہ قطعات کی زیر نظر کتاب میں انور مسعود نے جا بجا تضمینات سے کام لیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ انور مسعود نے سب سے زیادہ غالب کا اثر قبول کیا ہے اور ان کے بعد اقبال کا۔ انور مسعود ان اکابر کے مصرعوں کی تضمین ایک تخلیقی شان سے کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ بعض مصرعوں میں ہلکا سا تصرف یا تحریف کر کے انھیں اپنے اور قارئین کے لیے زیادہ مفید مطلب اور معنی خیز بنا لیتے ہیں۔ یوں ان کے ہاں تضمینات کا یہ اہتمام بڑا معنی آفریں ہو گیا ہے۔ تضمین مع تحریف کے لیے میں نے ان دونوں لفظوں کے جزوی ملاپ سے ایک اور ترکیب وضع کی ہے ’’تضریف‘‘!
انور مسعود کمال درجے کے ستم ظریف ہیں۔ واعظ کے ایک تکیہ کلام ’’وما علینا الا البلاغ‘‘ کو ایک قطعے کا عنوان بناتے ہیں۔ واعظ موصوف کا موضوع گفتگو ہے ’’ہمسایوں کے حقوق‘‘ ۔ اب قطعہ ملاحظہ کیجیے اور چٹکی کی ٹیس اور جلن بدن پر محسوس کیجیے: یہ واعظ کا طرز بیاں اللہ اللہ / بلند اس کا آہنگ ہوتا رہے گا / جو بولے گا یوں حقِ ہمسائیگی پر / ’’تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا!‘‘ اس قطعے میں میر کے مصرعے کی تخلیقی تضمین کی داد نہ دینا ظلم ہو گا۔ اس پر مستزاد قطعہ میں برتا گیا ایہام جس نے اسے بڑا پہلو داربنا دیا ہے۔
انور مسعود نے ایک قطعے میں دریائے راوی کے کسی زمانے کے صاف شفاف لہریے لیتے پانی کو یاد کیا ہے اور تاسف کا اظہار کیا ہے کہ اب یہ دریا ایک بہتے جوہڑ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مگر ایک راوی ہی پہ کیا وقوف اب تو تمام دریاؤں کا پانی شدید طور پر آلودہ ہو چکا ہے۔ یہی دریا سمندروں سے مل کر انھیں بھی آلودہ کر رہے ہیں۔ ایٹمی فضلات کی پیدا کردہ خوفناک آلودگی اس پر مستزاد ہے۔ آبی مخلوقات تیزی سے مر رہی ہیں۔ انور مسعود کا گوشِ شنوا تمام دریاؤں کے گریۂ خفی کو سنتا ہے اور بجا طور پر اس کا ذمہ دار حضرتِ انسان کو ٹھہراتا ہے:
ایک گریہ سنائی دیتا ہے / سارے دریاؤں کی روانی میں / آدمی نے وہ زہر گھولا ہے / مچھلیاں مر رہی ہیں پانی میں۔ انور مسعود کے ایک قطعے کا عنوان ہے ’’بار آلودگی‘‘ کس تاسف کے عالم میں کہتے ہیں: کسی برگ گل پہ گرد نہیں ہے جمی ہوئی / دھبے ردائے باد صبا پر کہاں نہیں / چشمے بھی اب تو آب مصفا سے ہیں تہی / آلودگی کے بوجھ سے دریا رواں نہیں۔
انور مسعود پاکستان اور دنیائے اسلام کو سربلند اور باوقار دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ ناانصافی انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر وہ اس پر لطیف انداز میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والے معاشی استحصال اور ملٹائی نیشنل کمپنیوں، بنکوں اور مالیاتی اداروں کی خوفناک استحصالی چالیں ان کی نگاہ سے چوک نہیں سکتیں: آئی ایم ایف ہے پھر ہمیں مطلوب / اس سے پھر بات چیت جاری ہے / ’’پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں / پھر وہی زندگی ہماری ہے‘‘۔ اس ضمن میں ایک اور قطعہ ’’لہٰذا ‘‘ کے زیر عنوان دیکھیے: کھرے ہیں ہم بہت داد و ستد کے / ثبوت اس پر مسلسل دے رہے ہیں / ادا کرنے ہیں ہم کو پچھلے قرضے / لہٰذا اور قرضے لے رہے ہیں۔ جن استحصالی اداروں کا ذکر انور مسعود نے اپنے متعدد قطعات میں اجمالاً کیا ہے اس کی تفصیل جاننے کے لیے قارئین جان پرکنز کی کتاب "The New Confessions of an Economic Hitman" ملاحظہ کر سکتے ہیں جو مغربی معاشی استحصالی نظام کی ہولناکیوں کو اپنے تمام تر مکروہ افعال کے ساتھ نمایاں کرتی ہے اور جس سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ یہ پھیلایا ہوا معاشی جال کس قدر خوفناک اور غیر انسانی ہے۔ آخر میں چند اور قطعات ملاحظہ فرمائیں۔ آپ یقینا شاعر کے لطیف ایما، طنز، ظرافت اور ان کی تہ میں موجود گہرے تأسف کی خلش کو محسوس کریںگے: نیا قاعدہ: یوں پڑھو بچو الف : آلودگی / غین سے غوغا، دھماکے دال سے / جیم سے جرم اور ملاوٹ میم سے / قاف سے قتل اور ڈاکے ڈال سے۔ (اصولاً دھماکے ’’دھ‘‘ سے ہونا چاہیے کہ ’’دھ‘‘ مرکب حرفِ تہجی ہے)۔ کالا باغ ڈیم: بے تحاشا بار ہاوہو ہونے لگی / چار سو اور کو بکو ہونے لگی / ڈیم کی جب گفتگو ہونے لگی / آپ سے تم، تم سے تو ہونے لگی۔ انگریزی: اس سوچ کا حامل میں اکیلا تو نہیں ہوں / جمہور کی آواز ہے انور یہ مری رائے / مدت سے ہے ٹھہری ہوئی کیوں میرے وطن میں / انگریز گیا اس کی مؤنث بھی چلی جائے۔ ایک سوال: جہاں درکار ہے میزان و انصاف / وہاں تم اپنا خنجر گھونپتے ہو / یہ نااہلی نہیں تو اور کیا ہے / کہ نااہلوں کو عہدے سونپتے ہو۔ اس آخری قطعے کا اطلاق کس خوبی سے مجلس ترقی ادب کی موجودہ انتظامیہ اور اس کے بے ضمیر سرپرستوں پر ہوتا ہے! ویسے ایسی نااہل نوازیوں کا سرطان پورے معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے اور بڑی تیزی سے) اب خالص مزاح پر مبنی تین قطعات دیکھیے اور شاعر کی لطیف حس مزاح کی داد دیجیے: سزا اِس جرم کی پائی ہے اس نے / جو اس تکلیف میں جکڑا گیا ہے / کہا تھا کس نے نثری نظم گائے / مغنّی کا گلا پکڑا گیا ہے۔ آپ رہیے شوق سے میکے میں جا کر چند روز / اور ان بچوں کو چھوڑ آتا ہوں میں ننھیال میں / میرے بارے میں نہ ہونا جانِ من تشویش مند / میں چلاجاؤں گا کچھ دن کے لیے سسرال میں! جونہی پیدا ہوا بچہ تو بولا / میں موبائل پہ رونا چاہتا ہوں / مری سیلفی بناؤ جلدی جلدی / میں پیپسی پی کے سونا چاہتا ہوں۔
قدرتِ کلام اور کمال درجے کی حسِ مزاجی اور شعور طنز سے بہر ور شاعر انور مسعود اردو ادب کا ایک قابل قدر اثاثہ ہیں اور ان کی کلیاتِ قطعات ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح اردو کے ظریفانہ ادب میں ایک زندہ اور جیتا جاگتا اضافہ ہے۔