ایک سردار جی کے لطیفے نے نہ صرف مجھے چونکا دیا بلکہ مکمل طور پر قائل کر دیا کہ سدا بہار لطیفے دراصل اپنے اندر ایک پوشیدہ پر تو رکھتے ہیں لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک سردار جی نہایت اہتمام سے چائے پی رہے تھے۔ وہ ایک گھونٹ بھرنے کے بعد چائے کو ایک چمچے سے خوب ہلاتے، چمچہ چائے میں پھیر کر ایک گھونٹ بھرتے اور پھر مسکرانے لگتے۔ وہ یہ عمل بار بار دہراتے رہے۔ ہر گھونٹ کے بعد چائے کو چمچے سے ہلاتے، ایک اور گھونٹ بھرتے اور مسکرانے لگتے، نزدیک بیٹھے ایک صاحب نے پوچھا، ’’سردار جی آپ ہر بار چائے کو چمچے سے ہلا کر گھونٹ بھرنے کے بعد مسکراتے کیوں ہیں؟‘‘ تو سردار جی نے کہا، ’’ایک بات آج ثابت ہو گئی ہے، چائے میں اگر چینی نہ ڈالو تو لاکھ اسے چمچے سے ہلاؤ وہ کبھی بھی میٹھی نہیں ہو گی‘‘۔
نومبر1989ء میں وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد تحریک پیش ہوئی تو تمام مسلمان ممبران کو قرآن شریف ہاتھ رکھوایا گیا کہ وہ اپنی بات سے منحرف نہیں ہونگے اور رانا چندر سنگھ کو کہا گیا کہ گیتا پر ہاتھ رکھیں کر کہیں وہ کسی طرح بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ رانا صاحب نے کہا میں راجپوت ہوں میری زبان ہی کافی ہے۔
تاریخ گواہ ہے بلکہ بڑی شان شوکت کے ساتھ ماضی کے ان ممبران اور دور حاضر کے لیڈران کا منہ چڑا رہی ہے جنہوں نے قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا تھا جب وقت آیا تو وہ اپنی زبان
سے مکر گئے مگر رانا چندر سنگھ اپنی زبان پر قائم رہا۔ خیر عدم اعتماد تو ناکام رہا مگر لوگوں کے ایمان کا پتا چل گیا۔ عدم اعتماد تو ہر دور کا خاصا رہا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ تمام قومی اور عوامی پارٹیوں کا شیوہ رہا ہے۔ مگر ان بیمار لیڈران کے ایمان کا اندازہ آپ ذرا پھر سے لگائیے اور اپنا ایمان اور یاداشت بھی تازہ کیجیے۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق آصف علی زرداری پچھلے چار سال سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں، زرداری صاحب سنسری پیریفرل اور آٹونومک نیوروپیتھی کا مریض ہے۔ انہیں ریڑھ کی ہڈی اور جوڑوں میں بھی تکلیف ہے جب کہ وہ دل کے بھی مریض ہیں، انہی بیماریوں کو بنیاد بنا کر انہوں نے عدالتوں سے ریلیف بھی لیا ہے۔ اب آتے ہیں جناب شہباز شریف کی طرف۔۔
جناب شہباز شریف پچھلے چار سال سے کینسر کے مریض ہیں۔ وہ ڈاکٹر مارٹن لندن والے سے ’’غائبانہ‘‘ علاج بھی کراتے رہے ہیں، جب کہ شہباز شریف کمر درد کے مستقل عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔ ویسے اس بات کی سمجھ بخوبی آتی ہے جناب خورشید شاہ پچھلے چار سال سے دل کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کے دل کی اوپن ہاٹ سرجری بھی چکی ہے بلکہ دل داغدار بھی چکا ہے۔ چودھری شجاعت صاحب پچھلے دس سال سے سانس کی تکلیف میں مبتلا ہے اور وہ اپنے ملنے والوں کو بھی نہیں پہچانتے ہیں، چودھری صاحب جرمنی سے علاج کراتے رہے ہیں۔ دس سال سے سانس کی بیماری میں مبتلا ہونے باوجود چودھری صاحب کو ٹھیک ٹھاک سانس آ رہی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ آ رہی ہے۔ اب جناب ’’بھولے بادشاہ‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ جناب نواز شریف باؤ جی پچھلے کافی عرصے سے علاج کے سلسلے میں لندن میں مقیم ہے اور ابھی تک انکی دوائی نہیں ملی ہے بلکہ کسی کمپنی سے بنی نہیں ہے اور باؤ جی بھی دوائی کی ایجاد تک وہاں ہی تکیہ رکھیں گے۔ یہی معاملہ اسحاق ڈار صاحب کا ہے۔ شاید انہیں کوئی دماغی مسئلہ ہے۔ اب میں حیران ہوں بلکہ انگشت بدنداں ہوں۔ یہ سب قومی بیمار و لاچار اچانک ٹھیک کیسے ہو گئے ہیں۔ یہ مردہ بدست زندہ قبروں، ہسپتالوں اور کلینکوں سے نکل کر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ یہ ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر ایک دن میں دو دو پریس کانفرنسیں، تین تین میٹنگز کھڑکا رہے ہیں اور زبان درازی سے تیراندازی کا کام لے رہے ہیں۔ یاد رہے ان پر کرپشن کے کیسز بھی ہیں یہ عدالتوں میں بیماری کا بہانہ بنا کر پیش ہونے سے بچتے بھی رہے ہیں۔ البتہ یہ ذہنی و جسمانی عوام پر حکومت کرنے کیلئے بالکل فٹ اور تندرست ہیں بلکہ تندرستی کو ہزار نعمت سمجھتے ہیں۔ اب بھی اگر قوم ان کی حقیقت نہ سمجھے تو ایسی قوم کے شعور کا ماتم اور عزا داری ہی بنتی ہے۔ ویسے یہ عوام سردار سے کم نہیں ہے۔ یہ عوام ووٹ ڈالتے وقت شعور اور فکر کی چینی بھی نہیں ڈالتی اور چمچہ ہلا ہلا (بلکہ چمچے بن کر) ان لیڈروں اور لٹیروں کا گلہ بھی کرتی ہے۔ لاہور میں مقیم خوبصورت لہجے کے جدید اور پُرشکوہ شاعر ہمارے دلدار اور محبت بھرے دوست جاوید رامش کے بقول
کچھ بُرا وقت بھی آتا ہے سرِ راہِ عمل
کچھ مکافات بھی چل پڑتے ہیں پیچھے پیچھے