مقبوضہ بیت المقدس : مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے رہائشی فلسطینیوں پر الیکشنز میں ووٹ ڈالنے پر پابندی ہوگی، جس کی وجہ سے 3 لاکھ فلسطینی حق رائے دہی سے محروم رہیں گے کیوں کہ اسرائیل نے انہیں شہریت نہیں دی ہے۔
مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے رہائشی فلسطینیوں پر کل ہونے والے اسرائیلی الیکشنز میں ووٹ ڈالنے پر پابندی ہوگی کیوں کہ یہودی ریاست انہیں وہاں کا شہری نہیں سمجھتی۔ اسرائیل ان 3 لاکھ فلسطینیوں کو محض باشندے مانتا ہے۔
ان فلسطینیوں کو سماجی حقوق، صحت عامہ تک رسائی اور رہائشی کارڈز ملتے ہیں لیکن وہ پاسپورٹس سے محروم ہیں۔ وہ میونسپل کونسلرز کے لیے ووٹ ڈال سکتے ہیں مگر قومی سطح پر الیکشنز میں ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ اس کے لیے انہیں اسرائیل کی شہریت لینا ہوگی۔ تاہم، ایسا کرنے کی صورت میں وہ فلسطین میں منعقدہ انتخابات میں حصہ لینے سے محروم ہوجائیں گے۔
بیت المقدس کی حیثیت فلسطین۔اسرائیل تنازعات کی بنیاد ہے۔ ایک طرف اسرائیل اسے اپنا دارالخلافہ مانتا ہے تو دوسری جانب فلسطین کی عوام اسے اپنی مستقبل کی ریاست کی ریاست کا دارالخلافہ سمجھتی ہے۔
حالیہ برسوں میں مشرقی بیت المقدس کے ہزاروں فلسطینی مکینوں نے اسرائیل کی شہریت حاصل کی ہے۔ اس رجحان میں تیزی دسمبر، 2017 کے بعد آئی جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کیا تھا۔
فلسطینی ٹیچر نور دویات جنہوں نے پانچ برس قبل اسرائیل کی شہریت حاصل کی تھی ا ن کا کہنا ہے کہ میں اس ملک میں رہتی ہوں، اس کا حصہ ہوں ووٹ ڈالنا میرا حق ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر ووٹ کی اہمیت ہے اور میں اس امیدوار کو ووٹ دوں گی جو عرب کمیونٹی کی بہتری کے لیے کام کرے گا۔
اسی طرح ایک فلسطینی وکیل امیر نصیر جو کہ اسرائیلی شہریت حاصل کرچکے ہیں کا کہنا تھا کہ وہ عرب جوائنٹ لسٹ کے لیے ووٹ دیں گے، جو کہ مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نیتن یاہو عرب ممالک سے تعلقات استوار کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں مگر وہ فسلطینیوں کے ساتھ امن میں اظہار دلچسپی نہیں کررہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کا ووٹ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کا سبب بنے گا۔ نور دویات کا کہنا تھا کہ اسرائیلی پاسپورٹ کی مدد سے وہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بآسانی جاسکتی ہیں، جب کہ فلسطینی پاسپورٹ پر دنیا جہاں کی پابندیاں ہیں۔