اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ہے کہ بظاہر فوجی تنصیبات پر حملوں میں کوئی گٹھ جوڑ نظر نہیں آتا تو یہ مقدمات انسدادِ دہشتگردی عدالتوں میں جانے چاہئیں ۔
درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران اعتزاز احسن کے وکیل نے دلائل دیے کہ 7 جون کو فارمیشن کمانڈر کا اعلامیہ آیا۔ فارمیشن کمانڈر میں کرنل سے لے کر سب آتے ہیں۔ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ملک کی تمام ملٹری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔ 9 مئی کے ذمہ داروں کو یہ نہیں کہتا کہ چھوڑ دیا جائے۔کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سب بیانات ہیں، ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا۔ لطیف کھوسہ نے انسداد دہشتگردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کر دیئے۔کہا فارمیشن کمانڈر نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟ اب تک 96 مقدمات جناح ہاؤس پر حملے کے حوالے سے درج کیے گئے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ جن لوگوں نے پریس کانفرنس کی وہ بری الزمہ ہو گئے باقی گرفتار کر لیے گئے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ بظاہر فوجی تنصیبات پر حملوں میں کوئی گٹھ جوڑ نظر نہیں آتا تو یہ مقدمات انسدادِ دہشتگردی عدالتوں میں جانے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں صرف حقائق تک محدود رہنا چاہیے۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ راولپنڈی، ملتان اور لاہور سے عدالتوں سے ملزمان کو عسکری حکام نے لے لیا ۔ انسداد دہشتگری عدالت میں دی درخواست میں آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کہا گیا۔