اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے کیس کی سماعت کے خلاف درخواست کے دوران اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں سے کوئی ہمدردی نہیں انہیں کڑی سزا دیں لیکن کیس فوجی کی بجائے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلائیں۔
سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے سامنے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کے خلاف درخواست پر دلائل دیتے ہوئے اعتزاز احسن کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات کے پیچھے کیا محرکات تھے وہ اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے لیکن پندرہ مئی کو ان واقعات کی روشنی میں کور کمانڈر میٹنگ ہوئی جس میں کہا گیا کہ جو لوگ بھی ان واقعات میں ملوث ہیں ان کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
ان کے مطابق اس کے بعد 20 مئی کو نیشنل سیکیورٹی کے اجلاس میں بھی اسی قسم کے الفاظ دہرائے گئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے یہ کہا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوائے جائیں گے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کی بات کریں نا کیونکہ آپ کی درخواست ہی فوجی عدالتوں کے خلاف ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائیکورٹس کا کا 199 کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ فوج طلبی کا وہ نوٹیفیکیشن واپس ہو چکا ہے اور اٹارنی جنرل نے بھی نوٹیفکیشن کے واپس ہونے کی تصدیق کی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا 9 مئی کے ناقابل تردید شوہد ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا؟
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی پریس ریلیز میں یہی کہا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے تاہم ان کے مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چلایا جائے گا۔