سچ تو یہ ہے کہ غربت، ناقص تعلیم، سیاسی عدم استحکام اور ناامیدی نے ہم پاکستانیوں کا اپنے پیارے پاکستان سے رشتہ کمزور کیا ہے مگر ا س کے باوجودسچ یہ بھی ہے کہ ہمارا اپنی مٹی سے تعلق کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ پکا اور سچا ہے کیونکہ اس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ ہم بہت ساری زبانیں بولنے والے لوگ ہیں مگرکراچی سے خیبر تک ایک ہی عمارت میں، ایک ہی زبان میں اور ایک ہی طریقے سے جب سب ایک ہی رب کے سامنے مناجات کرتے ہیں تو ایک ڈور سے بندھ جاتے ہیں۔ یہ وہ رشتہ تھا جس کی بنیاد پر ہزاروں ، لاکھوں نے اپنے گھر بار اور باپ دادوں کی قبریں تک چھوڑ دی تھیں۔ میں اپنے شہر میں ایوان کارکنان تحریک پاکستان کو دیکھتا ہوں تو دل خوشی اور اطمینان سے بھرجاتا ہے کہ آپ کی نظر میں پاکستانیوں کو پاکستانی بنانے والا کام فضول خرچی ہو مگر میری نظر میں یہ ثواب کا کام ہے، ایک جہاد ہے۔
یہ نظریاتی ادارہ جناب مجید نظامی نے قائم کیا تھا اور اس کی بھرپور سرپرستی بھی کی۔ اس کے قیام اور مضبوطی میں ایک نظریاتی سیاسی کارکن غلام حیدر وائیں کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مجید نظامی کی رحلت کے بعد وسوسہ تھا کہ یہ کیسے چلے گا مگر شاہد رشید نے ان کے وارث کے طور پر کام کیا۔ میں دیکھتا ہوں کہ جہاں نوائے وقت، دی نیشن اور وقت ٹی وی وہ والے نہیں رہے وہاں ایوان کارکنان تحریک پاکستان موجو د ہے اور ان شاء اللہ موجود رہے گا۔ اب وہاں میرے بہت مہربان عثمان اور سیف کے ساتھ عمران گل بھی ہیں اور اسی تندہی سے کام کر رہے ہیں جو انہوں نے ورثے میں پائی ہے۔ نظریاتی سمر سکول ، ایوان کارکنان تحریک پاکستان کی، ایک شاندار وایت ہے جس میں مختلف سکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بلایا جاتا اور انہیں پاکستانیت سے سرشار کیا جاتا ہے۔ حسب روایت میں اس سکول میں مدعو تھا اور عثمان صاحب بتار ہے تھے کہ اس مرتبہ ریکارڈ تعداد میں اس سکول کے لئے رجسٹریشن ہوئی۔ اسی طرح بچوں نے مجھے آکر خوش آمدید کہا اور اسی طرح بیج لگایا گیا۔ میں جب ہال میں پہنچا تو بھرے ہوئے ہال کی طرف سے السلام علیکم کہنے میں بھی وہی زوراورشور تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ جناب مجید نظامی مرحوم کی قائم کی ہوئی روایات کو پوری طرح زندہ رکھا جا رہا ہے۔ ان کی زندگی کے آخری برسوں میں جب میں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو دیکھتا تھا تویہی سوچتا تھا کہ یہ تحریک پاکستان کی زندہ اور چلتی پھرتی کتابیں ہیں، یہ کتابیں اپنی آنکھیں بند کرتی جا رہی ہیں۔ اس وقت بھی آپ اندازہ لگائیں کہ پاکستان بننے ہوئے اگر کسی نے پندرہ برس کی عمر میں بھی دیکھا ہو تواس کی عمر نوے برس یا اس سے بھی زائد ہوگی، ہمارے پاس نوے برس کے عمروالے اب کہاں رہ گئے، تحریک پاکستان کی زندہ داستانیں اب ہمارے پاس کہاں رہ گئیں۔زندہ قومیں اپنی اساس اور نظریے کو کبھی نہیں بھولتیں، یہ ادارہ اس بنیاد کو سنبھالے ہوئے ہے،اس کی حفاظت کر رہا ہے۔ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا اور سنا، وہ کہتے ہیں کہ اس ادارے کا کیا فائدہ ، اس کی جگہ کوئی ٹیکنیکل ایجوکیشن کا ادارہ بنا دیا جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخ، اخلاق اورکردار پر پیسے کو اہمیت دیتے ہیں، میں مانتا ہوں کہ پیسہ اہم ہوتا ہے مگر سب سے اہم نہیں۔
میں نے بچوں سے کہا، ہمارے بزرگ ہمیں اچھا پاکستان نہ دے سکے اور ہم تمہیں بلکہ ہم نے تو آدھا پاکستان ہی گنوا دیا مگرتم لوگ اچھا پڑھنا لکھنا ، ہماری غلطیوں سے سبق سیکھنا اور ہم سے بہتر ، مضبوط اور خوشحال پاکستان بنانا۔میں نے ان سے کہا کہ آپس میں نفرتوں کا بیوپار نہ کرنا،ایک دوسرے سے محبت کرنا، ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھنا۔ بہت سارے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ان بچوں سے کیسی باتیں کر رہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ وہ تمام بچے اگرچہ چھوٹے چھوٹے تھے مگر وہ ان باتوں کو سمجھتے تھے۔ میرے اس یقین کی وجہ میرا مشاہدہ ہے، میں نے نظریاتی سمر سکول کے بچوں کو درست تلفظ اورایک تعلق کے ساتھ کلام اقبال پڑھتے اور گاتے ہوئے بارہا دیکھا ہے۔ چھوٹی سی عمر میں علامہ محمد اقبال کے کلام کو سمجھنا اور پڑھنا اس دور میں کوئی آسان کام نہیں ہے جب ہمارے بچے تو بچے رہے جوان تک اردو پر گرفت نہیں رکھتے۔ جب میں اپنے ٹی وی ٹیکروں میں’ ہیں‘ کی جگہ ’ہے‘ اور’ ہے‘ کی جگہ ’ ہیں‘ دیکھتا ہوں تو دل افسوس سے بھر جاتا ہے۔ ہمارے دوستوں کو ٹک ٹاک اور دوسری ایپس پر شاعری شئیر کرنے کا بھی بہت شوق ہے مگر جب میں کئی شاعروں کو اردو کی ٹانگ بلکہ ٹانگیں توڑتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سخت بدمزہ ہوتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ اردو ایک مشکل زبان ہے مگر آپ کو بھی ماننا ہو گا کہ مادری اورقومی زبان کبھی مشکل نہیں ہوتی، اسے سیکھنے کے لئے کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا مگروہ جو اک زوال ہے ، وہ ہے ، اس کا اب کیا کریں۔ میں ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں آنے والے بچوں کی بات کر رہا تھا کہ وہ پاکستان کو سمجھتے ہیں اور پاکستانیت کو بھی۔ کاش ہمارے والدین اس حوالے سے کچھ کوشش کریں، کچھ زحمت کریں تاکہ بچوں میں اپنے وطن سے محبت کا جذبہ موجود رہے۔
سینیٹر ولید اقبال بچوں کو آزادی اور غلامی کا فرق سمجھا رہے تھے، علامہ اقبال اور قائداعظم کی باتیں کر رہے تھے، ان کے ہر فقرے کے بعد لگتا تھا کہ ان کے اندر سے عمران خان کا نام نکلنے والا ہے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی پوری زندگی کو سیاسی کر لیا ہے، ہمارے رشتے ناطے دوستیاں تک اس کے تابع ہو گئی ہیں۔ سیاست پر ہم پر ایک بخار کی طرح چڑھ گئی ہے جس نے ہر شے کو بدمزہ کر دیا ہے۔ وہ جب تک تقریر کرتے رہے میں اسی اندیشے میں رہا اور جب تقریر ختم ہوئی تو خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ قائداعظم اور علامہ اقبال تک ہی رہے۔ کاش کوئی وقت آئے کہ جب ہماری سیاست ہمارے ایشوز کے گرد ہو، ہم اسلام اور پاکستان کے نام پر ایک دوسرے کو متنازع نہ بنائیں یعنی ایک دوسرے کو کافر اور غدار نہ کہیں۔ کہنا توہمیں ایک دوسرے کو کرپٹ بھی نہیں چاہئے کہ ہم کرپٹ کرپٹ کی گردان کرتے ہیںا ور پھر سیاسی رہنماؤں کو عدالتوں میں برس ہا برس چکر لگوانے کے بعد ثابت کچھ بھی نہیں کرپاتے۔ نجانے کیوں ہم انتہا پسند ہوچکے ہیں اور انتہا پسند بھی بلا کے۔ میں نے نظریاتی سمر سکول کے ہال میں لگی ہوئی اپنے اکابرین کی ڈھیروں تصاویر کو دیکھا اور خود سے پوچھا کہ کیا ہم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں نہ حقیقی جمہوریت ہو اور نہ عوامی سیاست، نہ عقل ہو اور نہ منطق بس انتہا پسندی ہی انتہا پسندی ہو۔ ہمارے پاس یہ ایک ایوان کارکنان تحریک پاکستان ہے ، اللہ اسے قائم رکھے ورنہ ہمارے پاس تو ایسے ادارے بھی نہیں جو زیاں کا احساس دلا سکیں،ہم سو رہے ہیں ہمیں جگا سکیں۔