آئیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تیزی، روپے کی بے قدری، ظالم مہنگائی اور بجٹ کی آگ، کسمپرسی، دہشت گردی، سیاست بازی، حکومت کی چالاکی اور اپوزیشن کی منافقت والی شقل دوپہر جیسی تپتی باتوں کو چھوڑ کر آج ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں دینے والے درختوں کی باتیں کرتے ہیں۔ ماحولیات کی روح ہرے بھرے درخت ہوتے ہیں۔ چلئے انہی ہری بھری روحوں کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ جو ہم انسانوں سے پہلے پیدا ہوئے، وہ جنہوںنے ہم انسانوں سے پہلے بڑا ہونا سیکھا، وہ جنہوں نے سانس لینے میں ہم انسانوں کی مدد کی، جن میں سے کئی کے قد ہم انسانوں سے لمبے ہیں، جن کا سایہ ہم انسانوں کو گہری صحتمند چھائوں دیتا ہے، وہ ہمارے دوست پیارے دوست درخت ہیں۔ خالق کی پیداکردہ یہ ایک ایسی شے ہے جو ساری کی ساری ہمارے لیے اور ہمارے آرام کے لیے بنی ہے۔ ان پر لگنے والے پھل اور پھول کھا کر ہی ہم زندہ رہتے ہیں۔ ان کے جسموں کو کاٹ کر ہم اپنے گھروں اور دفتروں وغیرہ کے لیے خوبصورت فرنیچر بناتے اور چولہے کی آگ جلاتے ہیں۔ ان کو مارکر، ان کا صفایا کرکے ہم اپنے آرام دہ راستوں کے لیے کالی اور بے جان سڑکیں بناتے ہیں۔ وہ ہمارے دوست پیارے دوست درخت ہیں جنہوں نے ہم انسانوں پر قربان ہوتے ہوئے کبھی آہ بھی نہیں کی اور چپ چپ اپنی نسل بڑھاتے جارہے ہیں کہ انسان اپنی آسائشِ زندگی اور آرائشِ زندگی میں اضافہ کرتا چلا جائے۔ وہ ہمارے دوست پیارے دوست درخت ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ انسان ہمیشہ کی طرح ناشکرا، احسان فراموش اور ظالم ہے۔ ہم اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ اپنے ایسے مخلص دوست کا سرقلم کرنے کے بعد اس کی جگہ نیا بیج بو دیں تاکہ نیا جنم لینے والا درخت بچہ ہمارے بچوں کے کام آسکے۔ ذرا اندازہ لگائیے، ذرا سوچئے انسان کی خودغرضی کا۔ ہم درختوں کی ہمدردی کے گیت گاتے ہیں۔ ان کی پرورش کے لیے بڑی بڑی تنظیمیں بناکر فنڈز اکٹھا کرتے ہیں۔ ان سے دوستی کے لیے دن مناتے ہیں لیکن وہ سب باتیں زبانی کلامی ہوتی ہیں۔ اکٹھا کیا گیا فنڈ ہم اجلاسوں اور پارٹیوں کی صورت میں کھا پی جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ’’درختوں کی یاد‘‘ میں دن منانے کے لیے ہم اپنے فنکشن بھی ریت بجری اور سیمنٹ کی بنی ہوئی بڑی بڑی عمارتوں میں کرتے ہیں۔ آج تک شاید کبھی کسی فرد، کسی سرکاری افسر یاکسی این جی او کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ درختوں سے اپنی محبت نبھانے کے لیے ان کی گھنی چھائوں میں بیٹھ کر اپنے اجلاس کریں۔ کبھی پارلیمنٹ یا کابینہ کا اجلاس درختوں کے سائے میں نہیں ہوا۔ کیا ہم درختوں سے محبت کے اظہار کے لیے قومی، صوبائی اسمبلیوں یا سینیٹ کے علامتی اجلاس درختوں کی چھائوں میں ایک مرتبہ بھی منعقد نہیں کرسکتے؟ ہم اگر غور کریں تو جنت میں باقی نعمتوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی ہمارے ساتھی ہوں گے اور اگر مزید غور کریں تودوزخ میں کوئی درخت نہیں ہوگا۔ ہم درخت جیسی جنت کی ایک علامت کو کتنی بے دردی سے ضائع کررہے ہیں جو نہ صرف قدرت کی ناشکری ہے بلکہ انسانوں
کے لیے زندہ رہنے کا ایک لازمی جزو بھی ہے۔ درخت کے لیے ہرمذہب اور ہرنظریئے میں احترام پایا گیا ہے۔ مثلاً پرانے یونانی نظریئے کے مطابق اچھے مرد اور اچھی عورتیں مرنے کے بعد خوبصورت درختوں میں بدل جاتے ہیں۔ بدھاسدھارتھ درختوں کے نیچے بیٹھ کر ہی اپنا گیان کرتے تھے۔ عیسائیت میں کرسمس ٹری کتنی اہمیت کا حامل ہے سب جانتے ہیں۔ اسلام میں بھی درختوں کی اہمیت اور افادیت کا بے پناہ ذکر ہے۔ جب 1972ء میں اقوام متحدہ نے درختوں کی اہمیت کا دن منانے کا اعلان کیا، اگر اس وقت سے پاکستان میں پیدا ہونے والے ہربچے کے ماں باپ اس کے نام کا ایک درخت لگاتے، بچے کے ساتھ ساتھ اس کی بھی پرورش کرتے تو آج پاکستان ایک ہری بھری ریاست ہوتا، دوسرا دفاعی نقطہ نظر سے بھی ایک کیموفلاجڈ ایریا ہوتا۔ اس کام کے لیے حکومتی آرڈر یا سرپرستی کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ہمیں اپنے انفرادی رویوں اور سوچوں میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔ کینیڈا میں ایسی این جی اوز موجود ہیں کہ اگر کوئی فرد مرجائے تو وہ اُس کے لواحقین کو ترغیب دیتی ہیں کہ اس مرنے والے کی یاد میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائے۔ مرنے والی کی یاد میں درخت لگانے اور اسے پروان چڑھانے کا ذمہ داری این جی اوز خود اٹھاتی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہمارے ملک میں نہیں ہوسکتا؟ ہمارے ہاں نئے درخت لگانا تو ایک طرف، ہم نے پہلے سے اُگے ہوئے درختوں کے ساتھ بھی مالِ غنیمت میں آئی لونڈی اور غلام جیسا سلوک کیا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر قبر کے سرہانے درخت لگائیں تو جب تک وہ ہرا بھرا رہے گا اس وقت تک مردے کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے۔ آج کل جتنی تیزی سے ہم درختوں کو سزائے موت سنا رہے اور انہیں آگ بھی لگا رہے ہیں، کیا اس صورتحال میں کچھ درخت قبروں کے لئے بچ سکیں گے؟ یا وہ بھی ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کے تحت امپورٹ کرنا پڑیں گے جن کا اعلان وزیرخزانہ حکومتی تالیوں کے شور کے دوران سالانہ بجٹ میں کیا کریں گے؟